سورة الأنبياء - آیت 34

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی) آپ سے پہلے بھی ہم نے کسی انسان کے لئے دائمی زندگی تو نہیں رکھی، اگر آپ مرجائیں تو کیا یہ ہمیشہ زندہ [٣٢] رہیں گے؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کہا کرتے تھے تم اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کرو ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موت کا راستہ ایک ایسی گزر گاہ ہے جس پر سب رواں دواں ہیں۔ ﴿ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ﴾ ” اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ سے پہلے دنیا میں کسی بشر کو دائمی زندگی عطا نہیں کی“۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موت سے ہم آغوش ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح دیگر رسول، انبیا اور اولیاء بھی اسی راستے پر گامزن رہے ہیں جس کی منزل موت ہے۔ ﴿أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ﴾ یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا جائیں گے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے تاکہ وہ اس دائمی زندگی سے لطف اندوز ہوں؟ معاملہ اس طرح نہیں (جس طرح انہوں نے سمجھ رکھا ہے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی زمین پر ہے اس کی منزل فنا ہے۔