قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ
موسیٰ نے جواب دیا : ’’یہ میری لاٹھی [١٤] ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں (علاوہ ازیں) میرے لیے اس میں اور بھی کئی فوائد [١٥] ہیں‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا :﴿ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي﴾ ” یہ میری لاٹھی ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں۔“ اس میں اللہ تعالیٰ نے دو فوائد ذکر فرمائے ہیں۔ (1) آدمی کے لئے فائدہ، وہ چلنے پھرنے اور کھڑے ہونے میں اس کا سہارا لیتا ہے اور اسے اس سے مدد حاصل ہوتی ہے۔ (2) بہائم کے لئے فائدہ، آدمی اس کے ذریعے سے اپنی بھیڑ بکریوں کو چراتا ہے۔ جب وہ اپنے مویشیوں کو درختوں کے پاس چراتا ہے تو اس سے درختوں کے پتے جھاڑتا ہے، یعنی یہ عصا درخت پر مارتا ہے تاکہ پتے جھڑیں اور ان کو بکریاں چر لیں۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حسن خلق ہے جس کے آثار یہ ہیں کہ وہ بہائم و حیوانات کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن رعایت سے پیش آتے تھے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی عنایات تھیں اللہ تعالیٰ نے انہیں چن کر اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت اس تخصیص کا تقاضا کرتی تھی۔ ﴿وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ﴾ ” اور میرے لئے اس میں دوسرے مقاصد بھی ہیں۔“ یعنی ان مذکورہ دو مقاصد کے علاوہ، دیگر مقاصد، یہ موسیٰ علیہ السلام کا ادب تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے سوال کیا کہ ان کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔۔۔ یہ سوال عصا کے عین کے بارے میں ہے یا اس کی منفعت کے بارے میں، اس میں دونوں احتمالات ہیں۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے عین اور منفعت، یعنی دونوں احتمالات کے مطابق جواب دیا۔