إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس وحی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّنِي أَنَا اللّٰـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا﴾ ” بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔“ یعنی اللہ ہی ہے جو الوہیت کا مستحق اور اس سے متصف ہے کیونکہ وہ اسماء، وصفات میں کامل اور اپنے افعال میں منفرد ہے، جس کا کوئی شریک ہے نہ مثیل اور جس کا کوئی ہمسر ہے نہ برابری کرنے والا۔ ﴿فَاعْبُدْنِي﴾ ” پس میری ہی عبادت کر“ عبادت کی ظاہری اور باطنی، اصولی اور فروعی تمام انواع کے ذریعے سے۔ پھر نماز کا بطور خاص ذکر فرمایا، حالانکہ نماز عبادت میں داخل ہے۔ اس کی ایک وجہ نماز کا شرف و فضل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نماز ایسی عبادت ہے جو دل، زبان اور اعضا کی عبادت کو متضمن ہے۔ ﴿لِذِكْرِي﴾ یہاں لام تعلیل کے لئے ہے، یعنی میرے ذکر کی خاطر نماز قائم کر کیونکہ ذکر الٰہی جلیل ترین مقصد ہے، علاوہ ازیں یہ عبودیت قلب کو متضمن ہے اور اسی پر انسان کی سعادت کا دار و مدار ہے۔ پس ذکر الٰہی سے خالی دل، ہر بھلائی سے محروم ہو کر پوری طرح برباد ہوجاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے مختلف انواع کی عبادات مشروع فرمائی ہیں، خاص طور پر نماز، تو ان عبادات کا مقصد صرف ذکر الٰہی کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَإِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰـهِ أَكْبَرُ﴾(العنکبوت:29؍45) ” اس کتاب کی تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کیجیے بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور ذکر الٰہی اس سے بھی بڑی چیز ہے۔“ یعنی نماز کے اندر اللہ تعالیٰ کا جو ذکر ہے، وہ نماز کے فحش اور برے کاموں سے روکنے سے، زیادہ بڑی چیز ہے۔ عبادت کی اس نوع کو توحید الوہیت اور توحید عبادت کہا جاتا ہے۔ الوہیت اللہ تعالیٰ کاوصف ہے اور عبودیت بندے کا وصف ہے۔