سورة البقرة - آیت 229

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

طلاق (رجعی) [٣٠٧] دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح سے اپنے پاس رکھا جائے یا بھلے طریقے [٣٠٨] سے اسے رخصت کردیا جائے اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں [٣٠٩] دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ الا یہ کہ دونوں میاں بیوی اس بات سے ڈرتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدود کی پابندی [٣١٠] نہ کرسکیں گے۔ ہاں اگر وہ اس بات سے ڈرتے ہوں کہ اللہ کی حدود کی پابندی نہ کرسکیں گے تو پھر عورت اگر کچھ دے دلا کر اپنی گلوخلاصی کرا لے [٣١١] تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ ہیں اللہ کی حدود، ان سے آگے نہ بڑھو۔ اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں مرد اپنی بیوی سے طلاق و رجوع کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ لہٰذا مرد جب اپنی بیوی کو نقصان پہنچانا چاہتا تو اسے طلاق دے دیتا اور عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلیتا۔ پھر اسے طلاق دے دیتا اور پھر اختتام عدت سے پہلے رجوع کرلیتا اور ہمیشہ اسی طرح کرتا رہتا۔ اس طرح عورت کو جس ضرر اور نقصان کا سامنا کرنا پڑتا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا :﴿اَلطَّلَاقُ﴾” یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے۔ ﴿ مَرَّتٰنِ ۠ ﴾” صرف دو مرتبہ ہے“ تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کرسکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ یا تو وہ بھلے طریقے سے اپنی بیوی کو رکھ لے ﴿بِمَعْرُوْفٍ﴾” بطریق شائستہ‘،یعنی اچھے رہن سہن اور اچھے سلوک کے ساتھ اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اس جیسے دوسرے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ کرتے ہیں اور یہی زیادہ راجح بات ہے، یا اس کو آزاد کر دے اور اس سے جدا ہوجائے ﴿ ۢ بِاِحْسَانٍ﴾ ’ ’یعنی بھلے طریقے سے۔‘، احسان یعنی بھلائی یہ ہے کہ اس نے بیوی کو جو مال وغیرہ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے، اس لئے کہ یہ ظلم ہے اور یہ کچھ دیئے بغیر مال لینے کے زمرے میں آئے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ۭ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَـیْـــًٔـا ﴾” تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم نے ان عورتوں کو جو کچھ دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو‘، ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۭ﴾” مگر یہ کہ وہ دونوں اس بات سے ڈریں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے“ اس میں معروف کے ساتھ خلع کرنے کا بیان ہے (جس میں خاوند کو معاوضہ لے کر طلاق دینے کی اجازت ہے) اس کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو اس کی عادات یا جسمانی بدصورتی کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ خاوند (کے حقوق) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرسکے گی۔ (تو وہ خلع کے ذریعے سے طلاق حاصل کرسکتی ہے۔﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ۙ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِـیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ۭ﴾” پس اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت جو معاوضہ دے گی تو ان پر کوئی گناہ نہیں“ اس لئے یہ اس جدائی اور علیحدگی کا عوض ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے جب یہ حکمت پائی جائے، تب خلع مشروع ہے۔ ﴿تِلْكَ﴾” یعنی وہ تمام احکام جن کا ذکر گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے : ﴿ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾” اللہ کی حدود ہیں۔“ یعنی وہ احکام ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مشروع فرمایا اور حکم دیا کہ ان پر عمل کیا جائے : ﴿ۚ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰۗیِٕکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾” اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے، پس وہی لوگ ظالم ہیں“ اس سے بڑا اور کون سا ظلم ہے کہ حلال سے تجاوز کر کے حرام کی حدود میں داخل ہوا جائے؟ کیا جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے، وہ اس کے لئے کافی نہیں؟ ظلم کی تین اقسام ہیں۔ (١) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب کرنا جو اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہیں۔ (٢) بندے کا ظلم اکبر یعنی شرک کا ارتکاب۔ (٣) بندے کا ان معاملات میں ظلم کا ارتکاب، جو اس کے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ شرک کو توبہ کے بغیر نہیں بخشتا اور حقوق العباد کو اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑے گا (بلکہ ایک دوسرے کو بدلہ دلوایا جائے گا) اور وہ ظلم جو بندے اور اس کے مابین ہے اور شرک سے کم تر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر منحصر ہے۔