سورة مريم - آیت 76

وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى ۗ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جو لوگ راہ راست پر چلتے ہیں اللہ انھیں مزید ہدایت [٦٨] عطا کرتے ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب [٦٩] اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد، کہ وہ ظالموں کی گمراہی کو اور زیادہ کردیتا ہے یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں، اپنے فضل و کرم اور رحمت سے مزید اضافہ کردیتا ہے۔۔۔ اور ہدایت، علم نافع اور عمل صالح دونوں کو شامل ہے۔ پس ہر وہ شخص جو علم و ایمان اور عمل صالح کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ علم و ایمان عطا کرتا ہے اور اس راستے میں اس کے لئے آسانی کردیتا ہے اور اسے بعض ایسے امور عطا کرتا ہے جو اس کے اپنے کسب کے تحت نہیں آتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ سلف صالح کا قول ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ﴾ (المدثر :74؍31)” تاکہ جو لوگ ایمان لائے ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔“ نیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا ﴾ (الانفال :8؍2) ” جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔“ نیز واقعات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں، کیونکہ ایمان دل اور زبان کے قول اور دل، زبان اور اعضاء کے عمل کا نام ہے، اور ان امور میں تمام اہل ایمان ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت ہیں۔ پھر فرمایا : ﴿وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ﴾ یعنی باقی رہنے والے وہ اعمال جو کبھی منقطع نہیں ہوتے جبکہ دیگر اعمال منقطع ہوجاتے ہیں اور جو مضمحل نہیں ہوتے، یہ نیک اعمال ہیں مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، عمرہ، قراءت قرآن، تسبیح و تکبیر، تحمید و تہلیل مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور دیگر تمام اعمال قلب اور اعمال بدن وغیرہ۔ پس یہ تمام اعمال ﴿خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ مَّرَدًّا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بہتر اجر و ثواب ہے، اہل اعمال کے لئے ان اعمال کا فائدہ اور اجر بہت زیادہ ہے۔ یہ اسم تفصیل کو کسی اور جگہ استعمال کرنے کے باب میں ہے کیونکہ وہاں باقیات صالحات کے سوا کوئی عمل صاحب عمل کو کوئی فائدہ دے گا نہ اس کا ثواب صاحب عمل کے لئے باقی رہے گا۔ یہاں باقیات صالحات کو ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ ظالم کفار اپنے مال و اولاد اور حسن مقام وغیرہ کے دنیاوی احوال کو اپنے حسن حال کی علامت قرار دیتے ہیں، اس لئے یہاں آگاہ فرمایا کہ معاملہ اس طرح نہیں جس طرح وہ سمجھتے ہیں بلکہ عمل، جو سعادت کا عنوان اور فلاح کا منشور ہے، ان امور کی تعمیل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور ان پر راضی ہے۔