سورة مريم - آیت 73

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو کافر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ : بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کس کی حالت بہتر ہے اور کس کی مجلس اچھی ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب ان کفار کے سامنے ہماری آیات بینات کی تلاوت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں کی صداقت پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں اور جو کوئی ان کو سنتا ہے اس کے لئے صدق ایمان اور شدت ایقان کا موجب بنتی ہیں۔۔۔ تو یہ ان آیات کا متضاد امور اور استہزا کے ساتھ سامنا کرتے ہیں اور ان پر ایمان لانے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور دنیا میں اپنی خوش حالی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اہل ایمان سے بہتر ہیں۔ پس وہ حق سے معارضہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ﴾ ” دونوں فریقوں میں سے کون۔“ یعنی مومنین اور کفار میں سے ﴿خَيْرٌ مَّقَامًا﴾ ” زیادہ بہتر ہے مقام کے لحاظ سے“ یعنی دنیا میں کثرت مال و اولاد اور تفوق شہوات کے اعتبار سے کون اچھے مقام پر ہے ﴿وَأَحْسَنُ نَدِيًّا﴾ ” اور کس کی مجلس اچھی ہے؟“ یعنی انہوں نے دنیا میں اپنے مال اور اولاد کی کثرت اکثر آسائشوں کے حصول اور مجلس آرائیوں سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے احوال اچھے ہیں اور اہل ایمان کا حال اس کے برعکس ہے، اس لئے وہ اہل ایمان سے بہتر ہیں اور یہ انتہائی فاسد دلیل ہے یہ چیز تقلیب حقائق میں شمار ہوتی ہے۔ ورنہ کثرت سے مال و اولاد اور خوبصورت منظر میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ان لوگوں کی ہلاکت، شر اور شقاوت کی باعث ہیں،