سورة الكهف - آیت 79

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کشتی کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ چند مسکینوں کی ملکیت تھی جو دریا پر محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کشتی کو عیب دار [٦٧] کردوں کیونکہ ان کے آگے ایک ایسا بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿أَمَّا السَّفِينَةُ﴾یعنی وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کردیا تھا ﴿فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ ﴾ ” وہ مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے“ ان پر ترس اور ان کے ساتھ مہربانی اس فعل کی مقتضی تھی۔ ﴿فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا﴾ ” تو میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں اور ان کے ورے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو لے لیتا تھا چھین کر“ یعنی ان کا راستہ اس ظالم بادشاہ کے پاس سے گزرتا تھا، لہٰذا اگر کشتی صحیح اسلم ہوتی اور اس میں کوئی عیب نہ ہوتا تو ظلم کی بنا پر اسے پکڑ لیتا اور غصب کرلیتا۔ میں نے اس کشتی میں اس لئے سوراخ کردیا تھا تاکہ یہ کشتی عیب دار ہوجائے اور اس ظالم کی دست برد سے بچ جائے۔