قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا
اس کے ساتھی نے گفتگو کے دوران اسے کہا : ’’ کیا تو اس ذات کا [٣٧] انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا‘‘
یعنی اس کے صاحب ایمان ساتھی نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے اور اس کو اس کی ابتدائی حالت یاد دلاتے ہوئے جس حالت میں اللہ تعالیٰ اسے وجود میں لایا تھا۔۔۔ کہا : ﴿ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلً﴾ ” کیا تو نے اس ذات کا انکار کیا جس نے تجھے پیدا کیا مٹی سے، پھر قطرے سے، پھر پورا کردیا تجھ کو مرد۔“ پس وہی ہے جس نے تجھے وجود بخشا اور تجھ تک اپنی نعمتیں پہنچائیں، تجھے ایک ہئیت سے دوسری ہئیت میں منتقل کیا یہاں تک کہ تجھے کامل اعضائے محسوسہ و معقولہ کے ساتھ آدمی بنا کر پیدا کیا، تیرے لئے اسباب میں آسانی پیدا کی اور تجھے دنیا کی نعمتیں مہیا کیں۔ تو اپنی قوت و اختیار سے کبھی یہ دنیا حاصل نہ کرسکتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر فضل و کرم کیا ہے۔ تب تیرے لئے کیونکر یہ مناسب ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کا انکار کرے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر قطعہ سے جنم دیا اور نک سک درست کر کے آدمی بنایا اور تو اس کی نعمت کو جھٹلاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تیرے مرنے کے بعد وہ تجھ کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور اگر اس نے تجھے دوبارہ زندہ کیا تو تجھے تیرے اس باغ سے بہتر باغ عطا کرے گا اور یہ ایسی بات ہے جو تیرے لئے مناسب اور تیرے لائق نہیں۔ جب اس کے مومن ساتھی نے دیکھا کہ وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جما ہوا ہے تو اس نے مجادلات و شبہات کے وارد ہونے کے وقت اپنے رب کی شکر گزاری اور اپنے دین کا اعلان کرتے ہوئے بتایا :