وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا
اور نہ ہی میں یہ گمان کرتا ہوں کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر مجھے اپنے رب کے ہاں پلٹا کرلے جایا بھی گیا تو میں یقیناً اس سے بہتر جگہ پاؤں گا
کہنے لگا : ﴿وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّي ﴾” اور نہیں خیال کرتا میں کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا“ یعنی فرض کیا قیامت قائم ہوتی ہے ﴿ لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا﴾ ” تو پاؤں گا اس سے بہتر وہاں پہنچ کر“ یعنی اللہ مجھے ان باغوں سے بہتر ٹھکانا عطا کرے گا، اس کی یہ بات دوامور سے خالی نہیں : (1) یا تو وہ حقیقت حال کا علم رکھتا ہے تب اس کا یہ کلام ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر ہے یہ اس کے کفر میں اضافے کا باعث ہے۔ (2) یا وہ حقیقت میں یہی سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا تب وہ دنیا کا جاہل ترین شخص اور عقل سے بے بہرہ ہے۔ دنیا کی عطا اور آخرت کی عطا میں کون سا تلازم ہے کہ کوئی جاہل شخص اپنی جہالت کی بنا پر یہ سمجھے کہ جسے اس دنیا میں عطا کردیا گیا ہے اسے آخرت میں بھی عطا کیا جائے گا بلکہ غالب طور پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا اور خاص بندوں سے دنیا کو دور ہٹا دیتا اور اپنے دشمنوں کو دنیا عطا کرتا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو حقیقت کا علم تھا مگر اس نے بات محض ٹھٹھے اور تمسخر کے طور پر کہی تھی اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ﴾ ” اور وہ اپنے باغ میں گیا، جب کہ وہ اپنے ساتھ ظلم کر رہا تھا“ پس باغ میں داخل ہوتے وقت اس سے صادر ہونے والے کلمات سے اس کے وصف ظلم کا اثبات، اس کے تَمَرُّد اور عناد پر دلالت کرتا ہے۔