سورة البقرة - آیت 211

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے کہ ہم نے کتنی ہی کھلی کھلی نشانیاں [٢٧٩] انہیں دی تھیں۔ پھر جو قوم اللہ کی نعمت کو پا لینے کے بعد اسے بدل دے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو سخت سزا دینے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍۢ بَیِّنَۃٍ ۭ﴾ ” بنی اسرائیل سے پوچھیں، کتنی ہی واضح نشانیاں ہم نے ان کو دیں؟“ ایسی آیتیں جو حق اور رسولوں کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں، انہوں نے ان آیات کو پہچان لیا اور ان کی حقانیت کا انہیں یقین بھی ہوگیا مگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر نہ بجا لائے جو اس نعمت کا تقاضا ہے، بلکہ انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو کفران نعمت سے بدل ڈالا۔ پس وہ اس بات کے مستحق بن گئے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کرے اور ان کو اپنے ثواب سے محروم رکھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفران نعمت کو ” نعمت کی تبدیلی“ اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کوئی دینی یا دنیاوی نعمت عطا کرتا ہے اور وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتا اور اس کے واجبات کو ادا نہیں کرتا تو یہ نعمت اضمحلال کا شکار ہوجاتی ہے اور اس کے پاس سے چلی جاتی ہے اور کفر اور معاصی اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح گویا کفر، نعمت کا بدل ہوگیا اور جو کوئی اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہے اور اس کے حقوق کو ادا کرتا ہے تو وہ نعمت نہ صرف ہمیشہ برقرار رہتی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس نعمت میں اضافہ کردیتا ہے۔