مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ۚ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا
اس بات کا نہ انھیں خود کچھ علم ہے، نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بہت ہی سخت بات [٥] ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔
﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ﴾ ” بڑی ہے بات جو نکلتی ہے ان کے مونہوں سے“ یعنی ان کی اس بات کی قباحت بہت زیادہ اور اس کی سزا بہت سخت ہے، اور اس شخص کے اس قول کی قباحت سے بڑھ کر اور کون سی قباحت ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹا منسوب کرتا ہے حالانکہ یہ نسبت اس کی ذات میں نقص اور خصائص ربوبیت و الوہیت میں غیر اللہ کی شراکت اور اس پر بہتان طرازی کی متقضی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللّٰـهِ كَذِبًا﴾ (الانعام: 6؍21)” اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔“ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا : ﴿ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ﴾ ” یہ لوگ محض جھوٹ بولتے ہیں“ جس میں صداقت کا ذرہ بھر شائبہ نہیں۔ غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح بتدریج ان کے قول کا ابطال کیا ہے اور کم تر باطل چیز سے زیادہ باطل چیز کی طرف انتقال کیا ہے، چنانچہ پہلے مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی۔ ﴿مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ﴾ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا علم اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا ممنوع اور باطل ہے پھر دوسرے مرحلے میں فرمایا کہ یہ انتہائی قبیح قول ہے، فرمایا : ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ﴾ پھر قباحت کے تیسرے مرتبے میں فرمایا کہ یہ محض جھوٹ ہے جو صدق کے منافی ہے۔۔