سورة الإسراء - آیت 85

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ’’روح میرے پروردگار کا حکم [١٠٦] ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے‘‘

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ آیت کریمہ ایسے لوگوں کو باز رکھنے کو متضمن ہے جو ایسے سوالات پوچھتے ہیں جن سے ان کا مقصد محض تعنت اور مسئول کو لاجواب کرنا ہوتا ہے۔ درآنحالیکہ وہ اہم امور کے بارے میں سوال نہیں کرتے۔ پس وہ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں جس کا تعلق مخفی امور سے ہے۔ کوئی شخص بھی روح کا وصف اور اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس علم میں بھی قاصر ہیں جس کے وہ محتاج ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ وہ ان کے سوال کا یہ جواب دیں۔ ﴿قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّ﴾ ” کہہ دیجیے ! روح میرے رب کے امر سے ہے“ یعنی من جملہ مخلوقات سے ہے جن کے بارے میں میرے رب نے حکم دیا کہ ”ہوجاؤ“ اور وہ وجود میں آگئیں، لہٰذا ان کے بارے میں سوال کرنا تمہارے لیے کوئی زیادہ فائدہ مند نہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر امور میں بھی تمہارا علم معدوم ہے۔ اس آیت مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب مسؤل سے کسی معاملے میں سوال کیا جائے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ ( لایعنی) سوال کا جواب دینے سے گریز کرے جو سائل نے پوچھا ہے اور اس امر میں اس کی راہنمائی کرے جس کا وہ محتاج ہے اور جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔