سورة الإسراء - آیت 66

رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتی کو چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ یقیناً وہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ان کے لیے کشتیوں، سفینوں اور دیگر سواریوں کو مسخر کردیا اور ان کو الہام کے ذریعے سے کشتی سازی کی صنعت و دیعت کی، موجیں مارتا ہوا سمندر ان کے لیے مسخر کردیا جس کی پیٹھ پر یہ سفینے تیرتے پھرتے ہیں تاکہ بندے اس پر سوار ہوں اور اپنے مال و متاع کی نقل و حمل میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت ہے وہ ہمیشہ سے ان پر بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ انہیں ہر وہ چیز عنایت کرتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتے ہیں اور جس کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جو یہ دلالت کرتی ہے کہ باطل معبودوں کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے۔ جب سمندر میں انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نیچے بلند ہوتی ہوئی موجوں کی وجہ سے جب وہ ہلاکت سے ڈرتے ہیں تو وہ ان تمام زندہ اور مردہ معبودوں کو بھول جاتے ہیں جنہیں وہ اپنی خوش حالی میں اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے۔۔۔۔ اس وقت تو ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے کسی وقت بھی ان کمزور معبودوں کو نہیں پکارا جو کسی قسم کی تکلیف دور کرنے سے عاجز ہیں اور وہ کائنات کو پیدا کرنے والے کو پکارتے ہیں جس کو تمام مخلوق اپنی سختیوں میں مدد کے لیے پکارتی ہے اور وہ اس حال میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے اور اسی کے سامنے گڑگڑاتے ہیں۔