وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ [١٩] ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ’’ہم ایسے ایمان لائیں، جیسے احمق لوگ ایمان لائے ہیں؟‘‘ خوب سن لو!(حقیقتاً) یہی لوگ احمق ہیں مگر وہ (یہ بات) جانتے [٢٠] نہیں
یعنی جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ یعنی جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان لائے ہیں جو کہ قلب و زبان کا ایمان ہے تو یہ اپنے زعم باطل میں جواب دیتے ہیں ” کیا ہم ویسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟“ ان کا برا ہو۔ بیوقوف لوگوں سے ان کی مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، کیونکہ ان کے زعم باطل کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیوقوفی اور حماقت ہی ان کے ایمان، ترک وطن اور کفار سے دشمنی مول لینے کی موجب ہے۔ ان کے نزدیک عقل اس کے متضاد اور برعکس رویئے کا تقاضا کرتی ہے۔ بنابریں انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سفاہت و حماقت سے منسوب کیا۔ ضمنی طور پر اس سے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ صرف وہی عقل مند اور اصحاب دانش و بینش ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے خبر دی کہ درحقیقت وہی بیوقوف اور احمق ہیں۔ کیونکہ بیوقوفی کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے مصالح سے بے خبر اور ایسے کاموں میں سرگرم ہو جو اس کے لئے ضرر رساں ہوں اور یہ صفت ان منافقین ہی پر منطبق ہوتی ہے۔ اور عقل اور دانش و بینش یہ ہے کہ انسان کو اپنے مصالح کی معرفت حاصل ہو اور وہ فائدہ مند امور کے حصول اور ضرر رساں امور کو روکنے کے لئے کاوش کرے۔ یہ صفت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل ایمان پر منطبق ہوتی ہے۔ پس (کسی چیز کا) اعتبار مجرد دعوے اور خالی خولی باتوں سے نہیں ہوتا بلکہ اوصاف اور دلائل کی بنا پر ہوتا ہے۔