سورة الإسراء - آیت 51

أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یا اس سے سخت تر مخلوق جو تمہارے [٦١] جی میں آئے (ہوجاؤ تو بھی اللہ دوبارہ پیدا کردے گا) پھر پوچھتے ہیں کہ :''ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟'' آپ کہئے : کہ وہی پیدا کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سرہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ: ’’ایسا ہوگا کب؟[٦٢]‘‘ آپ کہئے کہ : ’’شاید وہ وقت قریب ہو‘‘

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَسَيَقُولُونَ﴾ ” پس وہ کہیں گے“ یعنی جب آپ زندگی بعد موت کے بارے میں ان پر حجت قائم کرتے ہیں۔ ﴿مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ﴾ ” کون لوٹا کر لائے گا ہم کو ؟ کہہ دیجیے ! وہ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔“ یعنی جب تم کوئی قابل ذکر چیز نہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا اسی طرح وہ تمہیں نئے سرے سے پیدا کرے گا۔ ﴿كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ﴾ (الانبیاء : 104؍21)” جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم تخلیق کا اعادہ کریں گے۔“ ﴿فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ﴾ ” تو (تعجب سے) تمہارے آگے سر ہلائیں گے۔“ یعنی وہ آپ کی بات پر تعجب اور انکار سے سر ہلاتے ہیں ﴿ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ﴾ ” اور کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا؟“ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت کب ہوگا جیسا کہ تم کہتے ہو۔ یہ ان کی طرف سے زندگی بعد موت کا اقرار نہیں، بلکہ یہ ان کی سفاہت اور بزعم خود، دلیل میں بے بس کرنا ہے۔ ﴿قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا ﴾ ” کہہ دیجیے ! شاید یہ نذدیک ہی ہوگا“ اس لیے اس کے وقت کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا فائدہ اور اس کا دارومدار تو اس کے اقرار، اس کی تحقیق اور اس کے اثبات میں ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسے ضرور آنا ہے اس اعتبار سے وہ قریب ہی ہے۔