سورة البقرة - آیت 197

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

حج کے مہینے [٢٦٤] (سب کو) معلوم ہیں۔ تو جو شخص ان مہینوں میں حج کا عزم کرے (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) حج کے دوران نہ جنسی چھیڑ چھاڑ [٢٦٥] جائز ہے، نہ بدکرداری اور نہ ہی لڑائی جھگڑا۔ اور جو بھی نیکی کا کام تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ اور زاد راہ [٢٦٦] ساتھ لے لیا کرو اور (سفر حج میں) بہتر زاد راہ تو پرہیزگاری ہے۔ اور اے عقل والو ! (عقل کی بات یہی ہے کہ) میری نافرمانی سے بچتے رہو

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتاہے ﴿ اَلْحَجُّ﴾ یعنی حج واقع ہوتا ہے ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینوں (میں) “ جو مخاطبین کے ہاں معلوم اور معروف ہیں جن کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ روزوں کے لئے اس کے مہینے کے تعین کی ضرورت پیش آئی اور جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات بیان فرمائے ہیں۔ رہا حج تو یہ ملت ابراہیم کا رکن ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہمیشہ سے معروف رہا ہے اور وہ لوگ حج کرتے چلے آئے ہیں۔ جمہور اہل علم کے نزدیک ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینے“ سے مراد شوال، ذیقعد اور ذوالحج کے پہلے دس دن ہیں۔ یہی وہ مہینے ہیں جن میں غالب طور پر حج کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔ ﴿ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾” تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے۔“ یعنی جو کوئی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھتا ہے، کیونکہ جو کوئی حج شروع کردیتا ہے تو اس کا اتمام اس پر فرض ہوجاتا ہے خواہ حج نفلی ہی کیوں نہ ہو۔ اس آیت کریمہ سے امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب استدلال کرتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے قبل حج کے لئے احرام باندھنا جائز نہیں ہے۔ میں (عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) کہتا ہوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت کریمہ جمہور اہل علم کے اس مسلک پر دلالت کرتی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کے لئے احرام باندھنا صحیح ہے تو ایسا کہنا زیادہ قرین صحت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾ دلالت کرتا ہے کہ حج کی فرضیت کبھی تو مذکورہ مہینوں میں واقع ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اسے مقید نہ کرتا۔ ﴿ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ۭ﴾’’ تو دل لگی کی باتیں نہیں کرنا، نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا ہے حج میں“ یعنی تم پر حج کے احرام کی تعظیم کرنا فرض ہے خاص طور پر جبکہ وہ حج کے مہینوں میں واقع ہو، لہٰذا تم پر فرض ہے کہ تم احرام حج کی ہر اس چیز سے حفاظت کرو جو احرام کو فاسد کرتی ہے یا اس کے ثواب میں کمی کردیتی ہے، مثلاً (رَفَثَ) اور (رفث) سے مراد ہے جماع اور اس کے قولی اور فعلی مقدمات۔ خاص طور پر بیویوں کے پاس، ان کی موجودگی میں۔ (فُسُوْقَ) سے تمام معاصی مراد ہیں اور ممنوعات احرام بھی اس میں شامل ہیں اور (جِدال) سے مراد لڑائی، جھگڑا اور مخاصمت، کیونکہ لڑائی جھگڑا شر کو جنم دیتا اور دشمنی پیدا کرتا ہے۔ حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل اور انکسار، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے، اس لئے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ، جنت کے سوا کوئی نہیں۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے اور جان لیجیے کہ صرف ترک معاصی سے تقریب الٰہی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بھی نہ بجا لائے جائیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ﴾ ” اور جو بھی تم بھلائی کرتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے“ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عموم کی تصریح کے لئے (مِنْ) استعمال کیا ہے۔ اس لیے ہر بھلائی، تقریب الٰہی کا ہر ذریعہ اور ہر عبادت اس میں شامل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہر بھلائی کو جانتا ہے۔ یہ آیت کریمہ بھلائی کے کاموں میں ترغیب کو متضمن ہے۔ خاص طور پر زمین کے ان قطعات میں جن کو شرف اور احترام میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ اس لئے یہی مناسب ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ، طواف اور قولی و فعلی احسان کے ذریعے سے جتنی بھلائی ممکن ہو، اسے حاصل کیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں زادراہ ساتھ لینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ زاد راہ مسافر کو لوگوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور اسے لوگوں کے مال کی طرف دیکھنے اور سوال کرنے سے روک دیتا ہے۔ ضرورت سے زائد زادراہ ساتھ لینے میں فائدہ اور ساتھی مسافروں کی اعانت ہے اور اس سے اللہ رب العالمین کے تقرب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وہ زاد راہ ہے جو یہاں مراد ہے جو زندگی کو قائم رکھنے، گزر بسر کرنے اور راستے کے اخراجات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ رہا زاد حقیقی جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے تو وہ تقویٰ کا زاد راہ ہے جو جنت کی طرف سفر کا زاد راہ ہے اور وہی زاد راہ ایسا ہے جو انسان کو ہمیشہ رہنے والی کامل ترین لذت اور جلیل ترین نعمت کی منزل مراد پر پہنچتا ہے۔ جو کوئی زاد تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے وہ اس بنا پر اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے اور وہ اہل تقویٰ کی منزل پر پہنچنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ پس یہ تقویٰ کی مدح ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عقل مند لوگوں کو ان الفاظ میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے :﴿ وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ” اے اہل دانش ! مجھ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اے سنجیدہ اور عقلمند لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو جس سے ڈرنا وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا عقل انسانی حکم دیتی ہے اور اس کو ترک کرنا جہالت اور فساد رائے کی دلیل ہے۔