فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا
پھر جب ہمارا پہلا وعدہ آگیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے بڑے جنگ جو بندے لاکھڑے کئے جو تمہارے شہروں کے اندر گھس (کر دور تک پھیل) گئے۔ یہ (اللہ کا) وعدہ تھا جسے [٦] پورا ہونا ہی تھا۔
﴿ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا﴾ ’’پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا۔‘‘ یعنی جب دو مرتبہ فساد کرنے کے وعدے میں سے پہلے وعدے کا وقت آگیا یعنی ان سے فساد واقع ہوا ﴿بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ﴾ ’’تو ہم نے تم پر مسلط کردیئے۔‘‘ یعنی ہم نے تکوین، تقدیر اور جزا کے طور پر تم پر مسلط کردیئے ﴿عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ﴾ ’’اپنے بندے سخت لڑائی والے‘‘ بہت کثیر تعداد میں بہادر بندے جن کو اللہ نے تم پر فتح و نصرت عطا کی، انہوں نے تمہیں قتل کیا، تمہاری اولاد کو غلام بنایا اور تمہارے مال و متاع کو لوٹا۔ ﴿فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ﴾ ’’پس وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔‘‘ یعنی وہ تمہارے گھروں میں گھس گئے اور انہیں تہس نہس کردیا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر مسجد کو برباد کردیا۔ ﴿وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا﴾ ’’اور وہ وعدہ ہونا ہی تھا‘‘ چونکہ انہوں نے اس وعدے کے پورے ہونے کے تمام اسباب مہیا کردیئے تھے، لہٰذا اس وعدے کو پورا ہونا ضروری تھا۔ اصحاب تفسیر کا مسلط ہونے والی قوم کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ وہ کافر تھی۔ اس قوم کا تعلق یا تو عراق سے تھا یا وہ جزیرۃ العرب سے تھی یا ان کے علاوہ کوئی اور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل پر مسلط کردیا کیونکہ ان کی نافرمانیاں بڑھ گئی تھیں، انہوں نے شریعت کے اکثر احکام کو پس پشت ڈال دیا اور انہوں نے زمین میں سرکشی اختیار کرلی تھی۔