سورة الإسراء - آیت 1

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام [١] سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ جس کے ماحول کو ہم نے برکت [٢] دے رکھی ہے (اور اس سے غرض یہ تھی) کہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں [٣] دکھائیں۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات مقدس کی تنزیہ و تعظیم بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے افعال بہت عظیم اور اس کے احسانات بہت جسیم ہیں۔ اس کے جملہ افعال و احسانات میں سے ایک یہ ہے۔ ﴿ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ ’’وہ رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو لے گیا۔‘‘ یعنی وہ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راتوں رات لے گیا ﴿مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ’’مسجد حرام سے‘‘جو علی الاطلاق تمام مساجد میں جلیل ترین مسجد ہے۔ ﴿إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ﴾ ’’مسجد اقصیٰ تک‘‘ جو فضیلت والی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے اور وہ انبیاء کرام کی سر زمین ہے۔ جناب نبی مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی رات میں بہت دور مسافت تک لے جا یا گیا پھر اسی رات واپس لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں جن سے ہدایت، بصیرت، ثبات اور قوت تفریق و امتیاز میں اضافہ ہوا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی آپ پر عنایت اور لطف و کرم ہے کہ اس نے تمام امور میں آپ کے لئے بھلائی کو آسان فرما دیا اور آپ کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کی بناء پر آپ نے تمام اولین و آخرین پر فوقیت حاصل کی۔ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’اسراء‘‘ کا یہ واقعہ رات کے ابتدائی حصے میں پیش آیا اور سفر مسجد حرام سے شروع ہوا مگر صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپ کو حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے رات کے اس سفر پر لے جایا گیا۔ [تفسیر طبری: 9؍5] اس سے ظاہر ہوا کہ مسجد حرام کو جو فضیلت حاصل ہے، وہ تمام حرم کے لئے ہے۔ حرم میں عبادات کا ثواب اسی طرح کئی گنا بڑھ جاتا ہے جس طرح مسجد حرام میں عبادت کا ثواب کئی گنا ہوجاتا ہے، نیز یہ ’’اسراء‘‘ (معراج) کا واقعہ آپ کو بیک وقت جسم اور روح کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اگر آپ کو معراج جسم اور روح کے ساتھ نہ ہوئی ہوتی تو اس میں ’’آیت کبریٰ‘‘ کا کوئی مفہوم ہے نہ کسی بڑی منقبت کا کوئی پہلو ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب كان النبي صلي الله عليه وسلم..... الخ، حديث: 3570] معراج کے واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی صحیح احادیث منقول ہیں ان میں ان تمام امور کی تفاصیل مذکور ہیں جن کا آپ نے مشاہدہ کیا۔ آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا حتیٰ کہ آپ تمام آسمانوں کے اوپر چلے گئے۔ وہاں آپ نے جنت، جہنم اور تمام انبیاء کرام کو ان کے مراتب کے مطابق دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر پچاس نمازیں فرض کیں، پھر آپ موسیٰ علیہ اسلام کے مشورے سے بار بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہے حتیٰ کہ وہ بالفعل پانچ ہوگئیں مگر ان کا ثواب، پچاس نمازوں کا ہے۔ اس رات آپ کو اور آپ کی امت کو بہت سے مفاخر عطا کئے گئے جن کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں، قرآن مجید کو نازل کرنے کے ذکر کے مقام پر (سورہ فرقان میں) اور جہاں قرآن کی بابت چیلنج کیا گیا، (سورہ بقرہ میں) ان تینوں مقامات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت عبودیت (آپ کے بندے ہونے کی خوبی) کو بیان فرمایا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مقامات بلند اپنے رب کی عبودیت کی تکمیل کی وجہ ہی سے حاصل کئے ہیں۔ ﴿الَّذِي بَارَكْنَا ححَوْلَهُ ﴾ ’’وہ جس کے گرد ہم نے برکت رکھی ہے‘‘ یعنی درختوں، دریاؤں اور سدا بہار شادابی کے ذریعے سے برکت عطا کی اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی برکت ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے سوا دیگر تمام مسجدوں پر فضیلت عطا کی گئی، نیز مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کے لئے دور سے سفر کر کے جانا مطلوب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین کو اپنے نبیوں اور چنے ہوئے بندوں کے رہنے کے لئے مختص فرمایا۔