سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت [٩٥] سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو باہمی معاملات میں مکرو فریب کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک جماعت دوسری سے ناجائز فائدہ حاصل کرے۔ اللہ تو ان (قسموں اور معاہدوں) کے ذریعہ [٩٦] تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ اور قیامت کے دن تم پر یقیناً اس بات کی وضاحت کر دے گا جس سے تم اختلاف کیا کرتے تھے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَلَا تَكُونُوا ﴾ اپنے عہد توڑنے میں بدترین مثال نہ بنو جو بد عہدی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والوں کی صفت پر دلالت کرتی ہے ﴿ كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا ﴾ ”اس عورت کی مانند، جس نے مضبوطی سے سوت کاتنے کے بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔“ یعنی پہلے اس نے محنت سے سوت کا تا، جب وہ مضبوط اور اس کی خواہش کے مطابق ہوگیا، تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا، گویا اس نے پہلے کاتنے کی محنت کی، پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں محنت کی۔ پس ناکامی، تھکاوٹ، حماقت اور عقل کی کمی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اسی طرح جو کوئی عہد کو توڑتا ہے وہ ظالم، جاہل اور احمق ہے، اس کے دین اور مروت میں نقص ہے۔ ﴿تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ﴾ ” کہ ٹھہراؤ اپنی قسموں کو دخل دینے کا بہانہ آپس میں، اس واسطے کہ ایک فرقہ ہو چڑھا ہوا دوسرے سے“ یعنی تمہاری یہ حالت نہیں ہونی چاہئے کہ موکد اور پختہ قسمیں اٹھاؤ، پھر موقع اور حالات کی تلاش میں رہو۔ پس ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اگر معاہدہ کرنے والا کمزور ہو اور مخالف فریق پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاہدے کو پورا کرے مگر قسم اور معاہدے کی حرمت اور تعظیم کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بے بسی کی بنا پر اور اگر معاہدہ کرنے والا طاقتور ہو اور معاہدہ توڑنے میں اسے کوئی دنیاوی مصلحت نظر آتی ہو تو اسے توڑ دالے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے عہد کی پرواہ نہ کرے۔ یہ سب کچھ خواہشات نفس کے تابع ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی مراد، مروت انسانی اور اخلاق فاضلہ پر مقدم رکھا گیا ہو اور یہ اس لئے کہ ایک قوم عدالت اور طاقت کے لحاظ سے دوسری قوم سے بڑی ہے۔ ﴿إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللّٰـهُ بِهِ  ﴾ ” یہ تو اللہ پر کھتا ہے تم کو اس کے ذریعے سے“ یہ اللہ کی طرف سے تمہارا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لئے مصیبتوں کے اسباب مقرر کرتا ہے جس سے سچا اور وفادار شخص بدعہد اور بدبخت شخص سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ ﴿وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ” اور آئندہ کھول دے گا اللہ تمہارے لئے قیامت کے دن جس بات میں تم جھگڑتے تھے“ پس وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دے گا اور بد عہدی کرنے والے کو رسوا کرے گا۔