إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے [٩٣] منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس عدل کا حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں عدل اور بندوں کے حقوق کے بارے میں عدل کو شامل ہے۔ عدل یہ ہے کہ تمام حقوق کو پوری طرح ادا کیا جائے۔ بندہ مالی، بدنی اور ان دونوں پر مبنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کئے ہیں۔ مخلوق کے ساتھ کامل انصاف پر مبنی معاملہ کیا جائے۔ پس ہر ولی اپنی ولایت کے تحت آنے والے ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لے، خواہ یہ ولایت امامت کبریٰ (خلافت و امارت) یا ولایت قضاء یا خلیفہ کی نیابت یا قاضی کی نیابت ہو، اس معاملے میں سب برابر ہیں۔ عدل وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اہل ایمان پر فرض کیا ہے اور عدل کے راستے پر گامزن رہنے کا حکم دیا ہے۔ معاملات میں عدل یہ ہے کہ خرید و فروخت اور تمام معاوضات میں آپ لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کریں کہ آپ کے ذمہ جو کچھ ہے اسے پوری طرح ادا کریں۔ آپ ان کے حق میں کمی کریں نہ دھوکہ دیں نہ ان کے ساتھ فریب کاری کریں اور نہ ان پر ظلم کریں۔ عدل کرنا فرض ہے، احسان سے پیش آنا فضیلت اور مستحب ہے، مثلاً لوگوں کو مال، بدن، علم اور دیگر مختلف قسم کی منفعتوں کے ذریعے سے فائدہ پہنچانا حتیٰ کہ اس جانور کے ساتھ احسان کرنا بھی اس میں داخل ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے یا نہیں کھایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کو عطا کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔۔۔۔۔ اگرچہ وہ (احسان کرنے کے)عمومی حکم میں داخل ہیں۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کا حق موکد، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی متعین ہے اور صلہ رحمی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس حکم میں، قریب اور دور کے تمام رشتہ دار داخل ہیں مگر جو رشتہ میں زیادہ قریب ہے وہ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ ﴿وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ ﴾ ” اور وہ فحشاء سے منع کرتا ہے“ (الفحشاء)ہر اس بڑے گناہ کو کہتے ہیں جس کو شریعت اور فطرت سلیم برا سمجھتی ہو، مثلاً شرک، قتل ناحق، زنا، چوری، خود پسندی، تکبر اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آنا وغیرہ۔ (المنکر) میں ہر وہ گناہ اور معصیت داخل ہے جس کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ ہو۔ (البغی) سے مراد ہے لوگوں کے جان، مال اور ناموس پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا۔۔۔۔۔ اس طرح یہ آیت کریمہ تمام مامورات و منہیات کی جامع ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں داخل نہ ہو۔ یہ ایک اصول ہے جس کی طرف تمام جزئیات لوٹتی ہیں۔ پس ہر مسئلہ جو عدل، احسان یا قرابت داروں کو عطا کرنے پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ مسئلہ جو فواحش، منکرات یا ظلم اور زیادتی پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کے حسن و قبح کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اسی کے ذریعے سے لوگوں کے اقوال کو جانچا جاتا ہے اور اسی کی طرف تمام احوال لوٹتے ہیں۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفاء، روشنی اور تمام اشیاء کو پرکھنے کے لئے فرقان بنایا۔ اسی لئے فرمایا : ﴿يَعِظُكُمْ ﴾ ” وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان امور کے ذریعے سے تمہیں نصیحت کرتا ہے جن کو اس نے تمہارے لئے اپنی کتاب میں واضح فرمایا۔ وہ تمہیں اس چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمہاری بھلائی ہے اور اس چیز سے روکتا ہے جو تمہارے لئے ضرر رساں ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ ” تاکہ تم نصیحت پکرو“ جس چیز کی تمہیں نصیحت کی گئی ہے۔ پس تم اس کو سمجھو کیونکہ جب تم اس سے نصیحت حاصل کر کے اس کو سمجھ لو گے تب تم اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرو گے اور تم ایسی سعادت سے فیض یاب ہو گے جس کے اندر شقاوت کا شائبہ نہیں ہوتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کا حکم دیا جو اصل شریعت میں واجب ہیں، تو اس نے ان امور کے پورا کرنے کا بھی حکم دیا جن کو بندہ خود اپنے آپ پر واجب کرتا ہے، چنانچہ فرمایا :