وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
اور ان سے لڑو، جہاں بھی ان سے مڈ بھیڑ ہوجائے اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے [٢٥٢] اور فتنہ [٢٥٣] قتل سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد الحرام کے قریب ان سے جنگ نہ کرو الا یہ کہ وہ یہاں لڑائی شروع کردیں اور اگر وہ اس جگہ تم سے لڑائی کریں تو پھر ان کو قتل کرو کہ [٢٥٤] ایسے کافروں کی یہی سزا ہے
﴿ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ﴾ ” اور مار ڈالو ان کو جہاں کہیں بھی پاؤ تم ان کو“ یہ ان کے ساتھ قتال کا حکم ہے ہر وقت اور ہر زمانے میں جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں ان کے خلاف مدافعانہ اور جارحانہ جنگ جاری رہے۔ پھر اس عموم سے مسجد حرام کے قریب قتال کرنے کو مستثنیٰ کردیا، کیونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنا جائز نہیں، البتہ اگر وہ مسجد حرام کے قریب لڑائی کی ابتدا کریں تو پھر ان کے خلاف لڑائی کی جائے یہ ان کے ظلم و زیادتی کا بدلہ ہے۔ یہ کفار کے خلاف، ہر وقت اور دائمی قتال و جہاد ہے یہاں تک کہ وہ کفر کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیں۔ (اگر وہ ایسا کرلیں) تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، مسجد حرام میں شرک کا ارتکاب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت اور اس کا کرم ہے، چونکہ مسجد حرام کے قریب لڑنے کی ممانعت سے یہ وہم لاحق ہوتا ہے کہ یہ لڑائی اس محترم شہر کے اندر گویا فساد برپا کرنا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس حرمت والے شہر کے اندر فتنہ شرک اور اللہ تعالیٰ کے دین سے لوگوں کو روکنے کے مفاسد، قتل کے مفاسد سے بڑھ کر ہیں، لہٰذا اے مسلمانو ! تمہارے لیے ان کے خلاف لڑنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس آیت کریمہ سے فقہ کے ایک مشہور قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ دو برائیوں میں سے (جب ایک برائی کو اختیار کرنا لابدی ہو تو) کم تر برائی کو اختیار کیا جائے، تاکہ بڑی برائی کا سدباب کیا جا سکے۔