وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے [٢٥٠] ہیں مگر زیادتی [٢٥١] نہ کرنا۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو قطعاً پسند نہیں کرتا
یہ آیات کریمہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد اور قتال کو متضمن ہیں اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد جب مسلمان طاقتور ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قتال کا حکم دیا جب کہ اس سے قبل ان کو حکم تھا کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی سے روکے رکھیں۔ قتال کو ﴿ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ کے ساتھ مختص کرنے میں، اخلاص کی ترغیب اور فتنوں کے زمانے میں مسلمانوں کے آپس میں لڑنے کی ممانعت ہے۔ ﴿ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ﴾” جو تم سے لڑتے ہیں۔“ یعنی ان لوگوں کے ساتھ قتال کرو جو تمہارے ساتھ لڑنے کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ ذمے دار لڑنے کی اہلیت رکھنے والے کافر مرد ہیں، نہ کہ وہ بوڑھے جو لڑ سکتے ہیں اور نہ لڑائی میں کوئی مشورہ دے سکتے ہیں۔ حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت میں ظلم و تعدی کی تمام انواع شامل ہیں جیسے عورتوں، بچوں، بے عقل لوگوں اور راہبوں وغیرہ کو قتل کرنا جو لڑائی میں شریک نہ ہوں۔ جنگ کے دوران مقتولین کا مثلہ کرنا (یعنی مقتول کے کان، ناک اور پوشیدہ اعضاء کاٹنا، آنکھیں نکال دینا اور پیٹ چاک کرنا) اور مسلمانوں کی کسی مصلحت کے بغیر جانوروں کو قتل کرنا اور درخت وغیرہ کاٹنا، سب ظلم وتعدی میں شمار ہوگا۔ جب کفار جزیہ قبول کر کے اس کو ادا کرچکے ہوں تو ان کے خلاف لڑنا بھی ظلم و تعدی ہے جو کہ ہرگز جائز نہیں۔