إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ
بلاشبہ اس میں ایمان لانے والوں کے لئے نشانی ہے
﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” بے شک اس (واقعے) میں مومنوں کے لئے نشانیاں ہیں، اور اس قصے میں بہت سی عبرتیں ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کی اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام پے بے حد عنایات تھیں۔ لوط علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے اہل ایمان ابراہیم علیہ السلام کے متبعین میں شمار ہوتے ہیں۔ گویا حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شاگرد تھے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے قوم لوط علیہ السلام کے ہلاکت کے مستحق ہونے پر ان کو ہلاک کرنے کا اردہ فرمایا تو اس نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہو کر جائیں، تاکہ وہ ان کو بیٹے کی خوشخبری دے سکیں اور ان کو آگاہ بھی کریں کہ ان کو کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم لوط علیہ السلام کے بارے میں فرشتوں سے بحث کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فرشتوں نے ان کو مطمئن کردیا اور وہ مطمئن ہوگئے۔ (2) اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات تھیں۔ کیونکہ ان کی قوم کے لوگ، ان کے اہل وطن تھے، اس لئے بسا اوقات ان کو ان پر رحم آجاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب مقرر فرمائے جن کی بنا پر ان کو اپنی قوم پر سخت غصہ آیا حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگے کہ ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے میں دیر ہو رہی ہے۔ ان سے کہا گیا : ﴿إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ﴾ ” ان کے عذاب کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے، کیا صبح قریب نہیں؟“ (3) جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلا ک کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو ان کا شر اور ان کی سرکشی بڑھ جاتی ہے اور جب شر اور سرکشی کی انتہا ہوجاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ ان پر وہ عذاب واقع کردیتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔