ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
آپ انھیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیجئے کہ کچھ کھالیں، مزے اڑا لیں، اور لمبی چوڑی امیدیں انھیں غافل کئے رکھیں۔ پھر جلد ہی انھیں (سب کچھ) معلوم ہوجائے گا
پس ﴿ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا ﴾ ” چھوڑ دیں ان کو، کھا لیں اور فائدہ اٹھا لیں“ اپنی لذتوں سے ﴿وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ﴾ ” اور امید ان کو غفلت میں ڈالے رکھے“ یعنی وہ دنیا میں باقی رہنے کی امید رکھتے ہیں۔ پس بقاء کی یہ امید انہیں آخرت سے غافل کردیتی ہے ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾’’عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔“ یعنی اپنے باطل موقف کو عنقریب جان لیں گے اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اعمال ان کے لئے محض خسارے کا باعث تھے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے دھوکا نہ کھائیں۔ کیونکہ قوموں کے بارے میں یہ مہلت سنت الٰہی ہے۔