وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ
ان لوگوں نے (حق کے خلاف) خوب چالیں چلیں۔ حالانکہ ان کی چالوں کا توڑ اللہ کے پاس موجود تھا۔ اگرچہ ان کی چالیں ایسی خطرناک تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل [٤٦] جائیں
﴿ وَقَدْ مَكَرُوا ﴾ ” اور چال چلی“ یعنی انبیاء ومرسلین کو جھٹلانے والوں نے ﴿مَكْرَهُمْ﴾ ” اپنی چال“ ایسی ایسی چالیں چلیں جن کا انہوں نے ارادہ کیا اور جو وہ چل سکتے تھے۔ ﴿وَعِندَ اللَّـهِ مَكْرُهُمْ﴾ ” اور اللہ کے ہاں ہے ان کی چال“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم اور اپنی قدرت کے ذریعے سے ان کا حاطہ کئے ہوئے ہے اور ان کی چالیں لوٹ کر انہی کے خلاف گئیں۔ ﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾(فاطر : 35؍ 43) ” اور بری چالوں کا وبال انہی لوگوں پر پڑتا ہے جو چالیں چلتے ہیں “۔ ﴿وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ﴾ ” اگرچہ ان کی چال ایسی تھی کہ ٹل جائیں اس سے پہاڑ“ یعنی انبیاء ورسل اور وحی کو جھٹلانے والوں کی چالیں اور سازشیں اتنی بڑی ہیں کہ ان کے سبب سے بڑے بڑے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں۔ یعنی ﴿وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا﴾(نوح : 71؍ 22) ” انہوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں۔“ ان کی سازشیں اتنی بڑی تھیں کہ ان کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشیں انہی پر الٹ دیں۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص شامل ہے جو باطل کی نصرت اور حق کے ابطال کے لئے انبیاء ورسل کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی چالیں ان کے کسی کام نہ آئیں اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچا سکے، بلکہ انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا۔