يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اے ایمان والو! اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے [٢١٤] والے ہو تو جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں کھانے کو عطا کی ہیں وہی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو
عام حکم دینے کے بعد یہ اہل ایمان کے لیے خاص حکم ہے اور یہ اس لیے کہ وہی درحقیقت اپنے ایمان کے سبب سے اوامرو نواہی سے مستفید ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک رزق کھانے کا اور اللہ کے اس انعام پر اس کا شکر کرنے کا حکم دیا کہ وہ اس رزق کو اس کی اطاعت میں ان امور میں مدد لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو انہیں اللہ تک پہنچاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی چیز کا حکم دیا ہے جس چیز کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ﴾ (المومنون :51؍23) ” اے رسولو ! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو۔“ پس اس آیت کریمہ میں شکر سے مراد عمل صالح ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ (حلال) استعمال نہیں فرمایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ضرر رساں چیزوں کو چھوڑ کر خالص پاکیزہ رزق کو اہل ایمان کے لیے مباح کیا ہے، نیز ایمان مومن کو وہ چیز تناول کرنے سے روک دیتا ہے جو اس کے لیے نہیں ہے۔ فرمایا : ﴿ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾” اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو“ تو اس کا شکر کرو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کی۔ جیسے جس نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور وہ اس کا حکم بجا لایا۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پاکیزہ رزق کھانا اعمال صالحہ اور ان کی قبولیت کا سبب ہے۔ نعمتوں کے ذکر کے بعد شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ شکر موجود نعمتوں کی حفاظت کرتا ہے اور غیر موجود نعمتوں کے حصول کا باعث بنتا ہے جیسے کفر غیر موجود نعمتوں کو مزید دور کرتا ہے اور موجود نعمتوں کو زائل کرتا ہے۔