سورة البقرة - آیت 170

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان ( کفار و مشرکین) سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔ اگر ان کے آباؤ اجداد ہی کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ وہ راہ ہدایت [٢١٢] پر ہوں ( تو کیا پھر بھی یہ لوگ انہی کی پیروی کریں گے؟)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ مشرکین کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کو اس کتاب کی اتباع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہے جس کی صفت گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے تو وہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاۗءَنَا ۭ﴾” بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔“ پس انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کی تقلید پر اکتفا کیا اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے سے بے رغبتی اختیار کی۔ باوجود اس بات کے کہ ان کے آباؤ و اجداد لوگوں میں سب سے زیاد جاہل اور سب سے زیادہ گمراہ تھے۔ حق کو رد کرنے کا یہ ایک نہایت ہی کمزور شبہ ہے، یہ ان کی حق سے روگردانی اور اس سے اعراض اور ان کے عدم انصاف کی دلیل ہے، اگر رشد و ہدایت اور اچھے مقصد کی طرف ان کی راہنمائی کی گئی ہوتی، تو حق ان کا مقصد ہوتا اور جو کوئی حق کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اور وہ حق اور غیر حق کے درمیان موازنہ کرتا ہے تو قطعی طور پر حق اس کے سامنے واضح ہوجاتا ہے اور اگر وہ انصاف پسند ہے تو وہ حق کی اتباع کرتا ہے۔