أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کیا تمہیں ان لوگوں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں جیسے نوح، عاد اور ثمود کی قومیں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کے حالات جنہیں صرف [١١] اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ [١٢] میں دے دیئے اور کہنے لگے : ’’جو پیغام تم لائے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو اس سے ہم ایسے شک میں پڑگئے ہیں جو ہمیں بے چین [١٣] کر رہا ہے‘‘
جھٹلانے والی قوموں کے پاس جب ان کے رسول آئے اور انہوں نے ان کو جھٹلایا تو ان قوموں پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں ان کو جو سزا دے دی یہ عذاب لوگوں نے دیکھا اور سنا، پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس عذاب سے ڈراتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ﴾ ” کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، قوم نوح، عاد اور ثمود“ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت بسط و تفصیل سے ان کے واقعات ذکر فرمائے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّـهُ﴾ ” اور جو ان کے بعد ہوئے، جن کو صرف اللہ جانتا ہے“ انکی کثرت اور ان کی تاریخ مٹ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا ﴿جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ﴾ ” ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے“ یعنی ان کے رسول ان کے پاس ایسے دلائل لے کر آئے جو ان کی تعلیمات کی صداقت پر دلالت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی رسول مبعوث فرمایا اس کو ایسی آیات عطا فرمائیں جو انسان کے بس میں نہ تھیں۔ جب ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان دلائل کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ انہوں نے نہایت تکبر کے ساتھ ان کو ٹھکرا دیا۔ ﴿فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ﴾ ” پس لوٹائے انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں“ یعنی وہ اس وحی پر ایمان نہ لائے جو رسول لے کر آئے تھے انہوں نے کوئی ایسی بات نہ کہی جو ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہو۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ﴾(البقرۃ:2؍ 19) ” تو یہ بجلی کی کڑک سے ڈر کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں۔“ ﴿وَقَالُوا﴾ اور صراحت کے ساتھ اپنے رسولوں سے انہوں نے کہا : ﴿إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ﴾ ” ہم نے انکار کیا اس چیز کا جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا اور بے شک ہمیں اس چیز میں جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ایک خلجان میں ڈالنے والا شک ہے۔‘‘