وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے۔ اس نے اپنی قوم کی زبان میں ہی پیغام دیا تاکہ وہ ان کے لئے ہر بات واضح طور پر بیان [٤] کرسکے پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر غالب اور حکمت [٥] والا ہے
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ ” اس نے ہر ایک رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے ان امور کو واضح کرے جن کے وہ محتاج ہیں“ اور وہ ان کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کتاب لے کر آیا ہوتا تو وہ اس زبان کو سیکھنے کے محتاج ہوتے جس میں رسول کلام کرتا ہے تب کہیں جا کر رسول کی باتیں ان کی سمجھ میں آتیں پس جب رسول ان تمام امور کو بیان کردیتا ہے جن کا انہیں حکم دیا گیا اور جن سے ان کو روکا گیا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوجاتی ہے تو ان میں سے جو لوگ ہدایت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ انکو گمراہ کردیتا ہے اور جن کو اپنی رحمت کے لئے مختص کرلیتا ہے ان کو راہ ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ ” اور وہ غالب حکمت والا ہے۔“ جس کا غلبہ یہ ہے کہ وہ ہدایت دینے، گمراہ کرنے اور جس طرف چاہے دلوں کو پھیر دینے میں منفرد ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ ہدایت اور گمراہی کو اسی مقام پر واقع کرتا ہے جو ان کے لائق ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ وہ علوم عربیہ، جن کے ذریعے سے کلام اللہ اور کلام رسول کی توضیح و تبیین ہوتی ہے، امور مطلوبہ میں شمار ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں کیونکہ ان کے بغیر کتاب اللہ کی معرفت کی تکمیل نہیں ہوتی۔ البتہ اگر لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ ان علوم عربیہ کے محتاج نہ ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ انہیں عربی زبان پر عبور حاصل ہو اور ان کے چھوٹے بچوں نے عربی زبان میں تعلیم و تربیت حاصل کی ہو اور عربی زبان ان کی طبیعت بن گئی ہو، تو اس صورت میں اس مشقت میں پڑنے کی ان کو ضرورت نہیں اور وہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین اس طرح اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس طرح صحابہ کرام(نے بغیر علوم آلیہ اور عبریہ کے) دین اخذ کیا تھا۔