سورة البقرة - آیت 168

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ [٢٠٨] چیزیں ہیں، وہی کھاؤ اور شیطان کے پیچھے [٢٠٩] نہ لگ جاؤ۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ خطاب مومن اور کافر تمام لوگوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر احسان فرمایا کہ انہیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ زمین سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے اناج، پھل، میوہ جات اور حیوانات اس حال میں کھائیں ﴿حَلَالًا﴾ کہ ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہو، وہ غصب شدہ مال ہو نہ چوری کیا ہوا، نہ حرام معاملے کے ذریعے سے اور نہ حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اور نہ کسی حرام امر پر اس سے مدد لی گئی ہو۔ ﴿طَيِّبًا﴾” پاکیزہ“ یعنی وہ خبیث اور ناپاک نہ ہو، مثلاً مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور دیگر تمام ناپاک چیزیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے، کھانے اور فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے۔ (یعنی ہر چیز اس وقت تک حلال ہے جب تک اس کی حرمت پر دلیل قائم نہ ہو۔) اور محرمات کی دو قسمیں ہیں۔ (١) مُحْرَّم لِذَاتِہ ، یعنی جو بذات خود حرام ہیں اور وہ ناپاک چیزیں ہیں جو پاکیزہ چیزوں کی ضد ہیں۔ (2) حرام کرنے والے کسی سبب کے پیش آنے کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں، یہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے تعلق کے حوالے سے حرام ہوتی ہیں۔ یہ حلال کی ضد ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نسان پر کم از کم اتنی خوراک کھانا فرض ہے جس سے اس کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے۔ اس آیت کے ظاہری حکم کے مطابق کھانا ترک کرنا گناہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان امور کی اتباع کا حکم دیا جن کو بجا لانے کا اس نے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں ان کی بھلائی ہے، تو پھر ان کو شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے روکا ہے ﴿ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ﴾ ” شیطان کے قدم“ یعنی شیطان کے راستے جن پر چلنے کا وہ حکم دیتا ہے۔ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور دیگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ اس سے مراد کفر، فسق، ظلم اور ديگر تمام گناہ ہیں اور اس میں سائبہ اور حام وغیرہ کی تحریم بھی شامل ہے نیز اس کے اندر تمام حرام ماکولات بھی شامل ہیں۔ ﴿ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾” وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ یعنی شیطان کی عداوت ظاہر ہے۔ وہ تمہیں محض دھوکے سے حکم دیتا ہے، تاکہ تم جہنمی بن جاؤ۔