سورة الرعد - آیت 18

لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم مان لیا ان کے لئے [٢٦] بھلائی ہے اور جنہوں نے نہیں مانا تو اگر وہ سب کچھ انھیں میسر آجائے جو زمین میں ہے بلکہ اتنا اور بھی تو وہ سب کچھ دے کر اللہ کی گرفت سے بچنے پر تیار ہوجائیں گے۔ یہی لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب [٢٧] لیا جائے گا۔ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا جو بہت بری جگہ ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حق کو باطل سے واضح کردیا، تو اب فرما رہا ہے کہ لوگ دو اقسام میں تقسیم ہیں : (1) اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کا ذکر فرمایا۔ (2) اپنے رب کی دعوت پر لبیک نہ کہنے والے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے عذاب کا ذکر فرمایا۔ ﴿ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ  ﴾ ” ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا“ یعنی جن کے دل علم و ایمان کے سامنے سرافگندہ ہیں اور ان کے جوارح امرونہی پر عمل پیرا ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ چاہتا ہے وہ اس کی مراد کی موافقت کرتے ہیں۔ ﴿الْحُسْنَىٰ ﴾ ” بھلائی ہے۔“ یعنی اچھی حالت اور اچھا ثواب ان کی صفات جلیل ترین، ان کے مناقب بہترین اور ان کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا گزر ہوا ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ ﴾ ” اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا“ یعنی ان کے سامنے مثالیں بیان کرنے اور حق واضح کرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے رب کی آواز پر لبیک نہ کہا، ان کی حالت اچھی نہ ہوگی۔ ﴿لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا  ﴾ ” اگر ان کے پاس ہو جو کچھ کہ زمین میں ہے سارا“ یعنی زمین کا تمام سونا چاندی وغیرہ ﴿وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ﴾ ” اور اتنا ہی اس کے ساتھ اور، تو سب دے ڈالیں اپنے بدلے میں“ یعنی قیامت کے روز کے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ میں، تو ان سے یہ سب کچھ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور یہ مال انہیں حاصل بھی کہاں سے ہوگا؟ ﴿أُولَـٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ ﴾ ” ان کے لئے ہے برا حساب“ یعنی یہ حساب ہر اس بد اعمالی کے بارے میں ہوگا جس کا انہوں نے دنیا میں ارتکاب کیا تھا اور بندوں کے جو حقوق ضائع کئے تھے، ان کی تمام بد اعمالیاں لکھ کر محفوظ کرلی گئی ہیں۔ وہ پکار اٹھیں گے۔ ﴿يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا  ﴾(الکھف:18؍49) ” ہائے ہماری بدبختی ! یہ کیسی کتاب ہے جو کسی چھوٹی بات کو لکھنے سے چھوڑتی ہے نہ کسی بڑی بات کو، اور وہ اپنے تمام اعمال کو موجود پائیں گے جو انہوں نے سرانجام دیئے ہوں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ “ ﴿وَ ﴾ ” اور“ یعنی اس برے حساب کتاب کے بعد ﴿مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ ﴾ ” ان کا ٹھکانا جہنم ہے“ جس میں ہر قسم کا عذاب جمع ہے۔ مثلاً شدید بھوک، درد ناک پیاس، بھڑکتی ہوئی آگ، کھانے کو تھوہر، ٹھٹھرا دینے والی سردی، خار دار جھاڑ اور عذاب کی وہ تمام اقسام جن کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ ﴿وَبِئْسَ الْمِهَادُ  ﴾ ” اور وہ بری جگہ ہے۔“ یعنی ان کا مسکن اور ٹھکانا بدترین ہوگا۔