سورة الرعد - آیت 13

وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور کڑک اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کے ڈر سے (پاکی بیان کرتے ہیں) وہی گرنے والی بجلیاں بھیجتا ہے جو اس پر ہی گرتی ہیں جس پر وہ چاہتا ہے درآنحالیکہ وہ اللہ کے بارے میں [٢٠] جھگڑا کر رہے ہوتے ہیں فی الواقع اس کی تدبیر بڑی زبردست ہے [٢٠۔ الف]

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ ﴾ ” اور تسبیح بیان کرتا ہے گرجنے والا، اس کی خوبیوں کی“ ﴿الرَّعْد﴾ سے مراد بجلی کی کڑک کی آواز ہے جو بادلوں سے سنائی دیتی ہے اور بندوں کو ڈرا دیتی ہے۔ یہ کڑک اپنے رب کے سامنے جھکی ہوئی، اس کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرتی ہے۔ ﴿وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ ﴾ ” اور سب فرشتے اس کے ڈر سے“ یعنی اپنے رب کے سامنے فروتنی کے ساتھ اور اس کی سطوت سے ڈرتے ہوئے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ﴿وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ ﴾ ” اور بھیجتا ہے وہ کڑکتی بجلیاں“ اس سے مراد وہ آگ ہے، جو بادلوں سے نکلتی ہے۔ ﴿فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ  ﴾ ” پھر ڈالتا ہے ان کو جس پر چاہے“ وہ کڑکتی ہوئی بجلیاں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے اور جب ارادہ کرتا ہے گرا دیتا ہے۔ ﴿وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّـهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ ﴾ ” اور وہ جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں اور اس کی گرفت سخت ہے“ وہ بہت زیادہ قوت و اختیار کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے کوئی اس کے سامنے دم مار سکتا ہے نہ بھاگ کر بچ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اکیلا ہی، بندوں کے لئے بادل اور بارش لاتا ہے جس کے اندر ان کے رزق کا مادہ ہے، وہی ہے جو تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، بڑی سے بڑی مخلوق اس کے خوف سے نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے سرافگندہ ہے، بندے اس کے خوف سے لرزاں ہیں اور وہ بہت بڑی قوت کا مالک ہے۔۔۔ تب وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔