سورة البقرة - آیت 165

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(ان نشانیوں کے باوجود) کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو اس کا شریک [٢٠٣] بناتے ہیں۔ وہ ان شریکوں کو یوں محبوب رکھتے ہیں۔ جیسے اللہ کو رکھنا چاہیے اور جو ایماندار ہیں وہ تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت [٢٠٤] رکھتے ہیں۔ کاش ان ظالموں کو آج یہ بات سوجھ جائے جو انہیں عذاب دیکھ کر سوجھے گی کہ قوت تو تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے۔ نیز یہ کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ آیت کریمہ (مضمون کے اعتبار سے) کتنے خوبصورت طریقے سے پچھلی آیت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کو بیان فرمایا اور اس کے قطعی دلائل و براہین بیان کیے جو علم یقینی عطا کرتے اور ہر قسم کے شک و شبہ کو زائل کردیتے ہیں تو یہاں اس نے ذکر فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ﴿مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا﴾ ” جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک ٹھہرا لیتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہمسر اور مثیل، جنہیں وہ عبادت، محبت، تعظیم اور اطاعت میں اللہ تعالیٰ کے برابر قرار دیتے ہیں اور حجت قائم کرنے اور توحید بیان کرنے کے بعد بھی جو شخص اس حالت پر رہنے پر مصر ہو تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عناد رکھنے والا، اس کا مخالف ہے یا اس کی آیات و مخلوقات میں تدبر و تفکر سے روگردانی کرنے والا ہے اور اس بارے میں اس کے پاس ادنیٰ سا عذر بھی نہیں، بلکہ عذاب کا کلمہ اس پر ثابت ہوگیا ہے اور یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ہمسر بناتے ہیں وہ تخلیق، رزق اور تدبیر میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مساوی قرار نہیں دیتے، بلکہ وہ صرف عبادت میں ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پس وہ ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں، تاکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ یَّتَّخِذُ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہیں۔ اہل شرک نے بعض مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کا جو ہمسر قرار دے رکھا ہے۔ وہ صرف نام ہی نام ہے، لفظ کے اعتبار سے ان کا کوئی معنی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ﴾ (الرعد:23؍13) ” اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ان سے کہو ذرا ان معبودوں کے نام تو لو کیا تم اسے ان چیزوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہو جنہیں وہ زمین کے اندر نہیں جانتا (یعنی زمین میں ان کا وجود ہی نہیں) یا محض ظاہری بات کی تقلید کرتے ہو۔“ فرمایا :  ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾ (النجم: 23؍53) ” یہ تو محض نام ہی ہیں جن کو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے گھڑ رکھا ہے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ “ پس مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہمسر نہیں ہوسکتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق اور اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہے، رب تعالیٰ رازق ہے اور اس کے علاوہ تمام مخلوق مرزوق ہے، اللہ تعالیٰ غنی اور بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامل ہے اور بندے ہر لحاظ اور ہر پہلو سے ناقص ہیں، اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان ہے اور مخلوق کو نفع و نقصان اور کسی چیز کا بھی اختیار نہیں، لہٰذا اس شخص کے قول کا بطلان یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اللہ کا ہمسر اور معبود ٹھہراتا ہے، یہ غیر اللہ خواہ فرشتہ ہو یا نبی، خواہ کوئی صالح بزرگ ہو یا کوئی بت، یا ان کے علاوہ کوئی اور، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی محبت کامل اور تذلل تام کی مستحق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ﴾” اور جو اہل ایمان ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔“ یعنی اہل شرک اپنے معبودوں سے جتنی محبت کرتے ہیں اس سے بڑھ کر اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ ان کی محبت خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اہل شرک اپنے معبودوں کی محبت میں بھی دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اہل ایمان صرف اسی سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا حقیقی مستحق ہے، جس کی محبت میں بندے کی عین صلاح، سعادت اور فوز و فلاح ہے۔ جب کہ اہل شرک ان ہستیوں سے محبت کرتے ہیں جو محبت کا کچھ استحقاق نہیں رکھتے، ان کی محبت میں بندے کی عین بدبختی ہے، اس کا فساد اور اس کے معاملات کا بکھرنا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا ﴿وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا ﴾” اگر دیکھ لیں وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا“ یعنی جنہوں نے غیر اللہ کو ہمسر بنا کر اور بندوں کے رب کے سوا دوسروں کی اطاعت کر کے ظلم کیا اور مخلوق پر ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روک کر اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر کے ظلم کیا۔ ﴿ اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ﴾” جب وہ عذاب دیکھیں گے۔“ یعنی قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے عیاں طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھیں گے﴿ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ﴾” ہر طرح کی قوت اللہ ہی کے لیے ہے اور یہ کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔“ یعنی اس وقت انہیں یقینی طور پر معلوم ہوجائے گا کہ تمام قوت و قدرت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انہوں نے جو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھے تھے ان کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں، تب اس روز ان کے سامنے ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی کمزوری اور بے بسی ظاہر ہوجائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا جیسے اس دنیا میں ان کا معاملہ مشتبہ ہے اور اہل شرک یہ سمجھتے ہیں کہ ان معبودوں کے پاس بھی اختیار ہے اور یہ معبود انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور اس کے پاس پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ پس وہ اپنے ظن اور گمان میں خائب و خاسر ہوئے اور ان کی تمام بھاگ دوڑ باطل گئی اور ان کے لیے سخت عذاب واجب ہوگیا۔ ان کے ٹھہرائے ہوئے یہ ہمسر ان سے عذاب کو روک نہیں سکیں گے اور نہ ذرہ بھر ان کے کوئی کام آسکیں گے، بلکہ ان معبودوں سے ان کو کسی فائدے کی بجائے نقصان پہنچے گا۔