سورة یوسف - آیت 109

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

آپ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب مرد ہی تھے اور انھیں بستیوں کے رہنے والے تھے جن کی طرف [ ١٠٣] ہم وحی کرتے رہے۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کا کیا انجام ہوا ؟ اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے آخرت کا گھر ہی بہتر ہے۔ کیا یہ کچھ سمجھتے نہیں؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا﴾ ” اور ہم نے آپ سے پہلے صرف مرد ہی رسول بنا کر بھیجے“ یعنی ہم انسانوں کی ہدایت کے لئے فرشتے یا کوئی اور مخلوق نہیں بھیجتے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم کو آپ کی رسالت میں کون سی چیز انوکھی نظر آرہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کو ان پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ پس آپ کے لئے انبیائے سابقین میں اسوہ حسنہ ہے۔ ﴿نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ﴾ ” ہم وحی کرتے تھے ان کی طرف، )وہ( بستیوں کے رہنے والے ہیں“ یعنی یہ انبیائے کرام صحراؤں میں رہنے والے نہیں تھے، بلکہ بستیوں میں رہنے والے تھے جو سب سے زیادہ کامل عقل اور سب سے زیادہ صحیح رائے کے حامل تھے، تاکہ ان کا معاملہ نہایت واضح اور ان کی شان نمایاں ہو۔ ﴿ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” کیا پس انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی“ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی تصدیق نہیں کرتے تو پھر انہوں نے چل پھر کر نہیں دیکھا ﴿فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ﴾ ” تو وہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔“ یعنی اور وہ دیکھتے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کر ڈالا۔ لہٰذا تم بھی اس رویہ کو اختیار کرنے سے بچو جس رویے پر وہ قائم رہے ہیں ورنہ تم پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے گا جو ان پر نازل ہوا تھا۔ ﴿وَلَدَارُ الْآخِرَةِ ﴾ ” اور آخرت کا گھر“ یعنی جنت اور جنت کی دائمی نعمتیں ﴿خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ﴾ ” ان لوگوں کے لئے بہتر ہیں جو پرہیز گار ہیں“ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، کیونکہ دنیا کی نعمتیں منقطع ہو کر ختم ہوجانے والی ہیں۔ آخرت کی نعمت کامل اور کبھی نہ فنا ہونے والی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ﴿عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ﴾ (ہود:11؍108)” یہ (اللہ تعالیٰ کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی“ ﴿ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” کیا تم سمجھتے نہیں۔“ یعنی کیا تمہارے پاس اتنی سی بھی عقل نہیں جو اعلیٰ کو ادنیٰ پر ترجیح دے سکے۔