فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
پھر جب وہ یوسف سے مایوس ہوگئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کرنے لگے : سب سے بڑے بھائی نے کہا ''یہ پتا ہے کہ تمہارے باپ نے اللہ کے نام پر تم لوگوں سے پختہ عہد لیا ہوا ہے۔ نیز تم اس سے پیشتر یوسف کے معاملہ میں بھی زیادتی کرچکے ہو۔ اب میں تو یہاں سے کبھی نہ جاؤں گا تاآنکہ میرا باپ مجھے حکم دے یا اللہ میرے [٧٧] لئے فیصلہ کر دے وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
جب یوسف علیہ السلام کے بھائی اس بارے میں مایوس ہوگئے کہ وہ ان کے بھائی کے معاملے میں نرمی اختیار کریں۔ ﴿خَلَصُوا نَجِيًّا﴾ ” تو وہ علیحدگی میں اکٹھے ہوئے اور اصلاح کرنے لگے۔“ جہاں کوئی اور موجود نہ تھا انہوں نے سر گوشیوں میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا۔ ﴿قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” ان کے بڑے نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لیا تھا“ یعنی تم سے اس کی حفاظت کرنے اور ساتھ لے کر آنے کا عہد لیا تھا، سوائے اس کے کہ تم کسی مصیبت میں گھر کر بے بس ہوجاؤ۔ ﴿وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ﴾ ” اور اس سے پہلے تم یوسف علیہ السلام کے بارے میں کوتاہی کرچکے ہو“ پس تم میں دو امور اکٹھے ہوگئے ہیں۔ (1) یوسف علیہ السلام کے بارے میں تمہاری گزشتہ کو تاہی۔ (2) اس کے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ نہ لانا۔۔۔ میرے پاس تو ایسی کوئی دلیل نہیں جس کے ذریعے سے میں اپنے باپ کا سامنا کرسکوں۔ ﴿فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ﴾ پس میں تو یہیں مقیم رہوں گا اور یہاں سے نہیں جاؤں گا ﴿حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّـهُ لِي﴾ ” یہاں تک کہ حکم دے مجھ کو میرا باپ یا اللہ میری بابت فیصلہ کر دے“ یعنی اللہ تعالیٰ میرے لئے اکیلے یا بھائی کے ساتھ آنا مقدر کر دے۔ ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو وصیت کی کہ انہیں اپنے باپ سے جا کر کیا کہنا ہے۔