سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

پھر کہنے لگے : میرے بچو! (شہر میں) ایک ہی دراوزے سے نہیں بلکہ مختلف دروازوں [٦٥] سے داخل ہونا۔ تاہم میں اللہ (کی مشیئت) سے تمہیں ذرہ بھر بھی بچا نہیں سکتا۔ حکم تو صرف اسی کا چلتا ہے میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور جسے بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرنا چاہئے۔''

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر جب یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا، تو ان کو وصیت کی کہ جب وہ مصر پہنچیں تو ﴿لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ ﴾ ” ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں، بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں“ یعنی وہ ان کے ایک ہی شخص کے بیٹے ہوتے ہوئے ان کی کثرت اور ان کے حسن منظر کی وجہ سے ان کو نظر لگنے سے ڈرتے تھے۔ یہ تو محض سبب ہے جو میں اختیار کر رہا ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے ﴿ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ﴾ ” میں تم کو اللہ کی کسی بات سے نہیں بچا سکتا“ پس جو چیز تقدیر میں لکھی جاچکی ہے وہ ہو کر رہے گی ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ﴾ ” حکم تو اللہ ہی کا ہے۔“ یعنی فیصلہ وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے اور حکم وہی ہے جو اس کا حکم ہے۔ پس جس چیز کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کر دے وہ ضرور واقع ہوتا ہے۔ ﴿عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” اسی پر میرا بھروسہ ہے“ یعنی جن اسباب کو اختیار کرنے کی میں نے تمہیں وصیت کی ہے، میں اس پر بھروسہ نہیں کرتا، بلکہ میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ﴿وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴾ ” اور اسی پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔“ کیونکہ توکل ہی کے ذریعے سے ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوتا ہے اور توکل ہی کے ذریعے سے خوف کو دور کیا جاتا ہے۔