يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
اے میرے قید کے ساتھیو! تم میں سے ایک تو اپنے مالک کو شراب پلائے گا، رہا دوسرا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا۔ اور پرندے اس کے سر کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ جن باتوں کی حقیقت تم پوچھ رہے تھے ان کا فیصلہ [٤٠] ہوچکا ہے
پس یوسف علیہ السلام نے قید کے دونوں ساتھیوں کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اخلاص کی طرف دعوت دی، تو یہ احتمال بھی ہے کہ ان دونوں ساتھیوں نے یوسف علیہ السلام کی دعوت قبول اور آپ کی اطاعت اختیار کرلی ہو اور اللہ کی نعمت کا ان پر اتمام ہوگیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے شرک پر جمے رہے ہوں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی ہو۔ پھر یوسف علیہ السلام نے ان دونوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کے مطابق ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کی۔ فرمایا : ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا﴾ ” میرے جیل خانے کے رفیقو ! تم میں سے ایک“ یہ وہ شخص تھا جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ شراب نکال رہا ہے۔ اس کے بارے میں یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ وہ قید سے آزاد ہوگا ﴿فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ﴾ ” پس وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔‘‘ یعنی وہ اپنے آقا کو جس کی وہ خدمت کیا کرتا تھا شراب پلائے گا اور یہ تعبیر اس کے قید سے نکلنے کو مستلزم تھی۔﴿وَأَمَّا الْآخَرُ ﴾’ ’’رہا دوسرا قیدی“ جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہے اور پرندے روٹیاں کھا رہے ہیں ﴿فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ ﴾ ” وہ سولی دیا جائے گا اور جانور اس کا سر کھا جائیں گے۔“ یوسف علیہ السلام نے روٹیاں سر پر اٹھانے کی جن کو پرندے کھا رہے ہوں، یہ تعبیر بتلائی کہ اس کا سر قلم کیا جائے گا۔ اس کے سر کا گوشت، چربی اور مغز جدا کئے جائیں گے، اس کو دفن نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے پرندوں سے بچایا جائے گا، بلکہ اسے ایسی جگہ صلیب پر لٹکایا جائے گا جہاں پرندے اس کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے آگاہ فرمایا کہ خواب کی یہ تعبیر، جو انہوں نے ان کو بتائی ہے پوری ہو کر رہے گی۔ فرمایا ﴿قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ ﴾ ” وہ امرتم مجھ سے پوچھتے تھے اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔“ یعنی جس معاملے کی تعبیر و تفسیر کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے اس کا فیصلہ ہوچکا۔