يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اے میرے قید کے ساتھیو! (ذرا سوچا) کیا متفرق [٣٨] رب بہتر ہیں یا ایک ہی اللہ جو سب پر غالب ہے؟
پھر یوسف علیہ السلام نے نہایت صراحت کے ساتھ ان دونوں کو توحید کی دعوت دی۔ فرمایا : ﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴾” اے قید کے ساتھیو ! کیا متفرق معبود بہتر ہیں یا ایک غالب اللہ“ یعنی عاجز اور کمزور معبود جو کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، جو کسی کو عطا کرسکتے ہیں نہ محروم کرسکتے ہیں یہ معبود شجرو و حجر، فرشتوں، مردہ ہستیوں اور دیگر مختلف قسم کے معبودوں میں بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں جن کو ان مشرکین نے معبود بنا رکھا ہے کیا یہ معبودان اچھے ہیں ﴿أَمِ اللَّـهُ ﴾ ” یا اللہ“ جو صفات کمال کا مالک ہے﴿الْوَاحِدُ﴾ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ ان تمام امور میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿الْقَهَّارُ ﴾ اس کے قہر اور تسلط کے سامنے تمام کائنات سر افگندہ ہے وہ جو چیز چاہتا ہے ہوجاتی ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتی۔ ﴿ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ﴾ (ھود:11؍56) ” جو بھی چلنے پھرنے والا جاندار ہے اس کی پیشانی اس کے قبضہ اختیار میں ہے۔“ یہ بات معلوم ہے کہ جس ہستی کی یہ شان اور یہ وصف ہو وہ ان متفرق معبودوں سے بہتر ہے جو محض گھڑے ہوئے نام ہیں جو کسی کمال اور فعل سے عاری ہیں۔