وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
پھر وہ دونوں دروازے کی طرف لپکے اور اس عورت نے یوسف کو پیچھے سے کھینچ کر ان کی قمیص پھاڑ ڈالی۔ دروازہ کھلا تو انہوں نے عورت کے خاوند [٢٥] کو دروازہ کے پاس کھڑا پایا تب وہ اسے کہنے لگی: ’’ جو شخص تیری بیوی سے برا ارادہ رکھتا ہو اس کا بدلہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ یا تو اسے قید کردیا جائے اور یا اسے [٢٦] دردناک سزا دی جائے‘‘
﴿ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا ﴾ ’’اس شخص کی کیا سزا ہے جو تیری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے‘‘ اور یہ نہیں کہا، ﴿مَن فَعَلَ بِأَهْلِكَ سُوءًا ﴾’’جس نے تیری بیوی کے ساتھ برائی کی۔‘‘ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اور یوسف علیہ السلام کو اس فعل سے بری ظاہر کرنا چاہتی تھی۔ تمام نزاع تو صرف برائی کے ارادے اور ڈورے ڈالنے کے بارے میں تھا﴿ اِلَّآ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ﴾’’مگر یہی کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے یا اسے دردناک سزا دی جائے۔‘‘