سورة یوسف - آیت 19

وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر ایک قافلہ آیا جس نے اپنے پانی لانے والے کو (پانی کی تلاش میں) بھیجا۔ اس نے (اس کنوئیں میں) اپنا ڈول لٹکایا تو بول اٹھا : بڑی خوشی کی بات ہے [١٧] یہاں تو ایک لڑکا ہے'' چنانچہ انہوں نے اسے بکاؤ مال سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے اللہ اسے خوب جانتا تھا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جناب یوسف علیہ السلام کچھ عرصہ اس اندھے کنویں میں پڑے رہے۔﴿ وَجَاۗءَتْ سَیَّارَۃٌ ﴾ ’’ایک قافلہ آ وارد ہوا۔‘‘ یہاں تک کہ ایک قافلہ آیا جو مصر جا رہا تھا۔ ﴿فَاَرْسَلُوْا وَارِدَہُمْ ﴾’’انہوں نے اپنے ہر اول سقے کو بھیجا‘‘ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قافلے کے لیے پانی تلاش کرتا ہے اور ان کے لیے حوض وغیرہ تیار کرتا ہے۔﴿ فَاَدْلٰی دَلْوَہٗ ﴾’’پس اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔‘‘ یعنی پانی تلاش کرنے والے اس سقے نے کنوئیں میں اپنا ڈول ڈالا تو یوسف علیہ السلام اس ڈول سے چمٹ کر باہر آگئے۔﴿ قَالَ یٰبُشْرٰی ھٰذَا غُلٰمٌ ﴾ یعنی وہ بہت خوش ہوا اور بولا یہ تو قیمتی غلام ہے۔﴿ وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً ﴾’’اور اس کو تجارت کا مال سمجھ کر چھپا لیا‘‘ یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی کہیں قریب ہی تھے۔ قافلے والوں نے یوسف کو ان کے بھائیوں سے خرید لیا۔﴿ بِثَمَنٍ بَخْسٍ ﴾’’بہت ہی معمولی قیمت میں۔‘‘ پھر اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی﴿دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃٍ ۚ وَکَانُوْا فِیْہِ مِنَ الزَّاہِدِیْنَ﴾ ’’چند درہموں میں اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔‘‘ کیونکہ ان کا مقصد تو صرف یوسف علیہ السلام کو غائب کر کے اپنے باپ سے جدا کرنا تھا۔ ان کا مقصد یوسف علیہ السلام کی قیمت حاصل کرنا نہ تھا۔ اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب یوسف علیہ السلام اس قافلے کے ہاتھ لگ گئے تو قافلے والوں نے ان کے معاملے کو چھپانے کا عزم کرلیا، تاکہ وہ انہیں بھی اپنے سامان تجارت میں شامل کرلیں، حتیٰ کہ ان کے بھائی آگئے اور انہوں نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں ظاہر کیا کہ وہ ان کا بھاگا ہوا غلام ہے۔ پس قافلے والوں نے انہیں اس معمولی قیمت پر خرید لیا اور انہوں نے قافلے والوں سے یقین حاصل کیا کہ وہ بھاگ نہ جائے۔ واللہ اعلم۔