وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر لائے۔ یعقوب نے کہا : (بات یوں نہیں) بلکہ تم لوگوں نے ایک (بری) بات کو بنا سنوار لیا ہے۔[١٥] خیر اب صبر ہی بہتر [١٦] ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس کے متعلق اللہ سے ہی مدد چاہتا ہوں
﴿وَ﴾ اور انہوں نے اپنی بات کو اس طرح مؤکد کیا۔﴿ وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ﴾ ’’وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لائے۔‘‘ اور دعویٰ کیا کہ یہ یوسف کا خون ہے اور یہ خون اس وقت لگا تھا جب بھیڑئیے نے یوسف کو کھایا تھا۔ مگر ان کے باپ نے ان کی بات کو تسلیم نہ کیا۔﴿ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا ﴾’’انہوں (یعقوب) نے کہا، بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو۔‘‘ یعنی تمہارے نفس نے میرے اور یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈالنے لیے ایک برے کام کو تمہارے سامنے مزین کردیا، کیونکہ قرائن و احوال اور یوسف (علیہ السلام) کا خواب، یعقوب علیہ السلام کے اس قول پر دلالت کرتے تھے۔﴿ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ۭ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ ﴾ ’’اچھا صبر کہ وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔‘‘ یعنی رہا میں، تو میرا وظیفہ، جس کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ ہے کہ میں اس آزمائش پر صبر جمیل سے کام لوں گا۔ مخلوق کے پاس اللہ تعالیٰ کا شکوہ نہیں کروں گا۔ میں اپنے اس وظیفے پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں۔ میں اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہیں کرتا۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے دل میں اس امر کا وعدہ کیا اور اپنے خالق کے پاس اپنے اس صدمے کی شکایت ان الفاظ میں کی﴿ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ ﴾﴿یوسف:12؍86﴾ ’’میں تو اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ کے پاس کرتا ہوں۔‘‘ کیونکہ خالق کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں اور نبی جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔