قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ
ان میں سے ایک نے کہا : یوسف کو مارو نہیں بلکہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی گمنام سے کنوئیں میں پھینک دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے اٹھالے [٩] جائے گا
﴿قَالَ قَاۗیِٕلٌ مِّنْہُمْ ﴾’’ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا۔‘‘ یعنی یوسف علیہ السلام کے بھائیوں میں سے کسی نے کہا جنہوں نے یوسف کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا ﴿لَا تَـقْتُلُوْا یُوْسُفَ﴾’’یوسف کو قتل نہ کرو‘‘ کیونکہ اس کو قتل کرنا بہت بڑی برائی اور بہت بڑا گناہ ہے اور یہ مقصد کہ یوسف علیہ السلام کو اس کے باپ سے دور کردیا جائے، یوسف کو قتل کیے بغیر حاصل ہوجائے گا، اس لیے تم یہ کرو کہ باپ سے دور کرنے کے لیے اسے اندھے کنویں میں ڈال دو اور یوسف کو دھمکی دو کہ وہ بھائیوں کی اس کارستانی کے بارے میں کسی کو آگاہ نہ کرے اور اپنے بارے میں یہی بتائے کہ وہ بھاگا ہوا ایک غلام ہے۔ اس وجہ سے کہ ﴿یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّـیَّارَۃِ﴾ ’’کوئی قافلے والا نکال کر اسے لے جائے گا۔‘‘ جو کہیں دور جا رہے ہوں گے اور وہ یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ اس قول کا قائل جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں سب سے اچھی رائے رکھنے والا اور اس پورے قضیے میں سب سے زیادہ نیک اور تقویٰ پر مبنی رویے کا حامل تھا، کیونکہ کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے کم تر ہوتی ہیں اور کم تر نقصان کے ذریعے سے بڑے نقصان کو دور کرلیا جاسکتا ہے۔ پس جب وہ اس رائے پر متفق ہوگئے۔