إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
بجز ان لوگوں کے جن پر آپ کا پروردگار رحم کردے۔ اللہ نے تو انھیں پیدا ہی اسی لیے کیا ہے (کہ وہ اختلاف کرتے رہیں) اور آپ کے پروردگار کی یہ بات پوری ہوگئی کہ : ’’میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا‘‘
﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ﴾مگر جن پر رحم کیا آپ کے رب نے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی علم حق کی طرف رہنمائی کی، انہیں اس پر عمل اور اس پر اتفاق کی توفیق بخشی۔ پس یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے سعادت کو لکھ دیا گیا تھا اور عنایت ربانی اور توفیق الٰہی نے ان کو جالیا تھا۔ رہے ان کے علاوہ دیگر لوگ تو ان کو ان کے نفسوں کے حوالے کردیا گیا۔﴿ وَلِذٰلِکَ خَلَقَہُمْ﴾’’اور اسی لیے ان کو پیدا کیا۔‘‘ یعنی ان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا، تاکہ ان میں سے کچھ لوگ خوش بخت اور کچھ لوگ بدبخت ہوں، ان میں کچھ لوگ اتفاق کرنے والے اور کچھ لوگ اختلاف کرنے والے ہوں۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نواز دیا اور ایک گروہ وہ ہو جو گمراہی کا حق دار قرار پایا، تاکہ بندوں پر اس کا عدل اور اس کی حکمت عیاں ہوجائے، نیز طبائع بشر میں جو کچھ بھی اچھائی اور برائی پنہاں ہے وہ ظاہر ہوجائے اور تاکہ جہاد اور ان عبادات کا بازار گرم ہو جو امتحان اور آزمائش کے بغیر درست اور مکمل نہیں ہوتیں اور اس لیے کہ﴿ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴾’’آپ کے رب کی وہ بات پوری ہوجائے (جس میں اس نے کہا تھا) کہ میں جہنم کو جنوں، انسانوں سب سے بھر دوں گا۔‘‘ پس لازم ٹھہرا کہ وہ جہنم کو اس میں رہنے والے مہیا کرے جو ایسے اعمال بجا لائیں جو جہنم میں پہنچاتے ہیں۔