سورة ھود - آیت 62

قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہنے لگے:’’ صالح اس سے پہلے تو تو ہماری امیدوں کا سہارا تھا [٧٣] کیا تو ہمیں (ان معبودوں کی) عبادت کرنے سے روکتا ہے جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے رہے؟ اور جس بات کی تو دعوت دیتا ہے اس میں ہمیں ایسا شک ہے جس نے ہمیں بے چین [٧٤] کر رکھا ہے‘‘

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب ان کے نبی صالح علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی ترغیب دی، تو انہوں نے آپ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور آپ سے انتہائی برے طریقے سے پیش آئے ﴿قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَـٰذَا ﴾ ” انہوں نے کہا صالح ! اس سے پہلے ہم تجھ سے امیدیں رکھتے تھے۔“ یعنی ہم نے تجھ سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور تجھ سے عقل مندی اور نفع کی توقع کی تھی۔ یہ ان کی طرف سے ان کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کے حق میں ایک گواہی ہے کہ وہ مکارم اخلاق اور محاسن عادات میں معروف تھے اور وہ اپنی قوم میں بہترین شخص گردانے جاتے تھے۔ مگر وہ یہ دعوت توحید لے کر آئے جو ان کی فاسد خواہشات کے موافق نہ تھی تب انہوں نے یہ بات کہی جس کے مضمون کا لب لباب یہ ہے۔ ” تو کامل شخصیت کا حامل تھا مگر تو ہمارے ظن و گمان کے بالکل خلاف نکلا اور اب تیری حالت ایسی ہے کہ تجھ سے کسی بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ “ صالح علیہ السلام کا گناہ صرف وہی تھا جو وہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے : ﴿أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا  ﴾ ” کیا تو ہمیں اس بات سے روکتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کریں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے“ اور وہ سمجھتے تھے کہ صالح علیہ السلام میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کیسے وہ ان کی عقل کی خامی بیان کرتے ہیں ؟ اور کیسے وہ ان کے گمراہ آباؤ اجداد کو بے عقل کہتے ہیں؟ اور کیسے وہ ان کو ہستیوں کی عبادت سے روکتے ہیں جو ان کو فائدہ دے سکتی ہیں نہ نقصان پہنچا سکتی ہیں اور پتھر اور لکڑی کے گھڑے ہوئے یہ معبود کسی کام نہیں آسکتے ؟ صالح علیہ السلام نے ان کو حکم دیا کہ وہ دین کو اپنے رب، اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کریں جو انہیں اپنی نعمتوں سے پیہم نوازتا رہتا ہے۔ اس کے دائمی احسانات کا ابر رحمت ان پر برستا رہتا ہے۔ ہر نعمت جو انہیں حاصل ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برائیوں کو ان سے وہی دور کرتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ  ﴾ ” تو ہمیں جس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے اس بارے میں ہم ہمیشہ شک میں مبتلا رہتے ہیں۔“ یہ شک ہمارے دلوں میں شبہات کو جنم دیتا ہے۔ بزعم خود، اگر وہ صالح علیہ السلام کی دعوت کو صحیح سمجھتے تو وہ ضرور ان کی اتباع کرتے۔ وہ اس بارے میں جھوٹ بولتے تھے۔