سورة یونس - آیت 78

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ کہنے لگے : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس طریقہ سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بڑائی قائم ہوجائے؟ ہم تو تمہاری بات [٩١] ماننے والے نہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا : ﴿أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ﴾ ” کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو، تاکہ تم ہمیں اس دین سے روک دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔“ مثلاً شرک اور غیر اللہ کی عبادت وغیرہ اور تم ہمیں حکم دیتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں چنانچہ انہوں نے اپنے گمراہ باپ دادا کے قول کو حجت بنا لیا جس کی بنیاد پر انہوں نے اس حق کو ٹھکرا دیا جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ ﴿وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے“ یعنی تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو تاکہ تم سردار بن جاؤ اور تم ہمیں ہماری زمینوں سے نکال باہر کرو۔ یہ ان کی طرف سے خلاف حقیقت بات اور جہالت کی حوصلہ افزائی ہے۔ نیز ان کا مقصد عوام کو موسیٰ (علیہ السلام) کی عداوت پر ابھارنا اور ان پر ایمان لانے سے گریز کرنا ہے۔ جو شخص حقائق کو سمجھتا اور معاملات کی خامی اور خوبی میں امتیاز کرسکتا ہے وہ ان کی اس بات کو قابل حجت اور قابل اعتنا خیال نہیں کرتا، کیونکہ دلائل کا رد دلائل اور براہین ہی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے، لیکن جو شخص حق پیش کرتا ہے اور اس کی بات کو اس قسم کے اقوال سے رد کردیا جائے، تو یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رد کرنے والا ایسی دلیل لانے سے عاجز ہے جو مد مقابل کے قول کو رد کر دے، کیونکہ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو وہ ضرور پیش کرتا اور اپنے مد مقابل کو یہ نہ کہتا ” تیرا مقصد یہ ہے“ اور ” تیری مراد وہ ہے“ خواہ وہ اپنے مد مقابل کے مقصد اور مراد کے بارے میں خبر دینے میں سچا ہے یا جھوٹا۔۔۔۔۔۔ تاہم اس کے باوجود جو کوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے احوال اور ان کی دعوت کی معرفت رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا مقصد زمین میں تغلب نہ تھا۔ ان کا مقصد تو وہی تھا جو دیگر انبیاء و مرسلین کا تھا۔۔۔۔۔۔ یعنی مخلوق کی ہدایت اور ان کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرنا جو ان کے لئے فائدہ مند ہیں۔ حقیقت دراصل یہ ہے جیسا کہ خود انہوں نے اپنی زبان سے اقرار کیا ﴿وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ ﴾ ” ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے“ یعنی انہوں نے تکبر اور عناد کی وجہ سے یہ کہا تھا ” ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔“ اور اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ جناب موسیٰ اور ہارون علیہما السلام نے جو دعوت پیش کی تھی وہ باطل تھی اور اس کی وجہ یہ بھی نہ تھی کہ اس میں یا اس کے معانی وغیرہ میں کوئی اشتباہ تھا۔ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ ظلم و تعدی اور ارادہ تغلب کے سوا کچھ نہ تھا جس کا الزام وہ موسیٰ علیہ السلام پر لگا رہے تھے۔