سورة یونس - آیت 66

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

سن لو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے ہے۔ اب جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کس چیز کی اتباع کرتے ہیں وہ تو محض ظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور محض قیاس آرائیاں کر رہے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اسی کی ملکیت ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے احکام کے ذریعے اس میں تصرف کرتا ہے۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی مملوک‘ اس کے سامنے مسخر اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ تمام مخلوق عبادت کا کچھ بھی استحقاق نہیں رکھتی اور کسی بھی لحاظ سے مخلوق اللہ تعالیٰ کی شریک نہیں بن سکتی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ شُرَكَاءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ﴾ ” اور یہ جو پیچھے پڑے ہوئے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے‘ سو یہ کچھ نہیں‘ مگر پیری کرنے والے ہیں اپنے گمان کی“ یعنی وہ ظن اور گمان، جو حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آتا﴿ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴾’’اور وہ محض اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اس بارے میں محض اندازوں اور بہتان و افترا سے کام لیتے ہیں۔ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے میں اگر وہ سچے ہیں، تو ان کے وہ اوصاف سامنے لائیں جو ان کو ذرہ بھر عبادت کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ وہ کبھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ کیا ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کوئی چیز پیدا کرسکتا ہو؟ یا وہ رزق عطا کرتا ہو؟ یا وہ مخلوقات میں سے کسی چیز کا مالک ہو؟ یا وہ گردش لیل و نہار کی تدبیر کرتا ہو؟ جس نے اسے لوگوں کی روزی کا سبب بنایا؟