سورة التوبہ - آیت 64

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

منافق اس بات سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو انہیں منافقوں کے دلوں کا حال بتلا دے۔ آپ ان سے کہئے : اور مذاق کرلو، جس بات سے تم ڈرتے ہو اللہ اسے یقیناً ظاہر کرکے رہے گا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس سورۃ کریمہ کو ( اَلْفاَضِحَۃ ) ” رسوا کرنے والی سورت“ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے، کیونکہ اس نے منافقین کے بھید کھولے ہیں اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” ان میں سے بعض“ ” ان میں سے بعض“ کہہ کر ان کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ لیکن متعین طور پر اشخاص کے نام نہیں لئے، اس کے دو فائدے ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ ” ستار“ ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ (٢) مذمت کا رخ ان تمام منافقین کی طرف ہے جو ان صفات سے متصف ہیں جس میں وہ بھی آگئے جو (بلاواسطہ) مخاطب تھے اور ان کے علاوہ قیامت تک آنے والے منافقین بھی اس میں شامل ہیں۔ اس اعتبار سے اوصاف کا تذکرہ زیادہ عمومیت کا حامل اور زیادہ مناسب ہے تاکہ لوگ خوب خائف رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا  مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴾(الأحزاب:33؍60۔61) ﴾ ” اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں بری بری افواہیں پھیلاتے ہیں، اپنے کرتوتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے پیچھے لگا دیں گے پھر وہ بہت تھوڑے دن ہی آپ کے پڑوس میں رہ سکیں گے۔ وہ دھتکارے ہوئے جہاں بھی پائے جائیں، پکڑے جائیں اور قتل کردیئے جائیں۔“ اور یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہے:﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ﴾” اگرمنافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورت نازل ہو جو ان کو جتا دے جو ان کے دلوں میں ہے“ یعنی وہ سورت ان کو ان کے کرتوتوں کے بارے میں آگاہ کر کے ان کی فضیحت کا سامان کرتی ہے اور ان کا بھید کھولتی ہے یہاں تک کہ ان کی کارستانیاں لوگوں کے سامنے عیاں ہوجاتی ہیں اور وہ دوسروں کے لئے سامان عبرت بن جاتے ہیں۔ ﴿قُلِ اسْتَهْزِئُوا﴾ ” کہہ دو کہ ہنسی مذاق کئے جاؤ۔“ یعنی استہزاء اور تمسخر کا تمہارا جو رویہ ہے اس پر قائم رہو ﴿إِنَّ اللَّـهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ﴾ ” اللہ کھول کر رہے گا اس چیز کو جس سے تم ڈرتے ہو“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور یہ سورت نازل فرمائی جو ان کے کرتوت بیان کر کے ان کو رسوا کرتی ہے اور ان کے رازوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔