سورة التوبہ - آیت 54

وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ان سے ان کے نفقات قبول نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اگر نماز کو آتے ہیں تو ڈھیلے ڈھالے اور اگر کچھ خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ [٥٨] ہی خرچ کرتے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے فسق اور ان کے اعمال کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَبِرَسُولِهِ﴾ ” اور نہیں موقوف ہوا ان کے خرچ کا قبول ہونا، مگر اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا۔“ ایمان، تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرط ہے اور یہ لوگ ایمان اور عمل صالح سے محروم لوگ ہیں حتیٰ کہ ان کی حالت تو یہ ہے کہ جب یہ لوگ نماز۔۔۔ جو کہ افضل ترین بدنی عبادت ہے۔۔۔ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اٹھتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی یہ حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ﴾ ” اور نماز کو آتے ہیں تو سست وکاہل ہو کر۔“ یعنی نماز کے لئے بوجھل پن کے ساتھ اٹھتے ہیں چونکہ نماز ان پر گراں گزرتی ہے، اس لئے نماز پڑھنا ان کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔ ﴿وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ﴾ ” اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے“ یعنی وہ انشراح صدر اور ثبات نفس کے بغیر خرچ کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی مذمت کی انتہا ہے جو ان جیسے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بندے کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب وہ نماز کے لئے آئے تو نشاط بدن اور نشاط قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے، تو انشراح صدر اور ثبات قلب کے ساتھ خرچ کرے اور امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیا ہے اور صرف اسی سے ثواب کی امید رکھے اور منافقین کی مشابہت اختیار نہ کرے۔