سورة الاعراف - آیت 205

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (اے نبی) اپنے پروردگار کو صبح و شام [٢٠٣] دل ہی دل میں عاجزی، خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز سے یاد کیا کیجئے اور ان لوگوں سے نہ ہوجائیے جو غفلت [٢٠٤] میں پڑے ہوئے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر قلب کے ذریعے سے، زبان کے ذریعے سے اور قلب اور زبان دونوں کے ذریعے سے ہوتا ہے اور یہ ذکر اپنی نوع اور احوال کے اعتبار سے کامل ترین ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً اور دیگر اہل ایمان کو تبعاً حکم دیا ہے کہ وہ نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ ﴿ تَضَرُّعًا﴾ ” عاجزی اور تذلل سے“ ذکر کی مختلف انواع کے تکرار کے ساتھ اپنی زبان سے ذکر کریں ﴿ وَخِيفَةً ﴾ ” اور ڈرتے ہوئے“ اور آپ کی حالت یہ ہونی چاہئے کہ آپ اپنے دل میں، اللہ تعالیٰ سے خائف اور ڈرتے ہوں مبادا کہ آپ کا عمل قبول نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے خوف کی علامت یہ ہے کہ بندہ خیر خواہی کے ساتھ اپنے عمل کی اصلاح اور تکمیل میں پیہم کوشاں رہتا ہے۔ ﴿وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ﴾ ” اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو“ یعنی متوسط رویہ اختیار کیجیے ﴿وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا﴾(بنی اسرائیل:17؍110)” اپنی نماز بلند آواز سے پڑھئے نہ بہت آہستہ آواز سے بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کیجیے۔“﴿ بِالْغُدُوِّ﴾ ” دن کے ابتدائی حصے میں“ ﴿وَالْآصَالِ ﴾ ” اور دن کے آخری حصے میں۔“ ان دونوں اوقات کو دیگر اوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ ﴿وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ﴾” اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ حال کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے۔ پس وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبودیت میں ہر فلاح و سعادت سے روگردانی کی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر بدبختی اور ناکامی کی طرف متوجہ رہے۔ یہ وہ آداب ذکر ہیں جن کے بندے کو رعایت رکھنی چاہئے جیسا کہ رعایت رکھنے کا حق ہے یعنی دن اور رات کے اوقات میں، خاص طور پر دن کے دونوں کناروں میں، نہایت اخلاص، خشوع و خضوع، عاجزی، تذلل کے ساتھ، پرسکون حالت میں، قلب و لسان کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، نہایت ادب ووقار سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور بہت توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کی جائے۔ غفلت کو دور کر کے حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل اور مشغول دل کے ساتھ کی ہوئی دعا کو قبول نہیں فرماتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو ہمیشہ اس کی عبادت اور خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔۔۔ اور وہ ہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے۔۔۔ تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری کثرت عبادت سے کوئی کمی پوری کرنی چاہتا ہے نہ تمہاری عبادت کے ذریعے سے ذلت سے نکل کر معزز ہونا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری عبادت کے ذریعے سے تمہیں ہی فائدہ دینا چاہتا ہے تاکہ تم اس کے ہاں اپنے اعمال سے کئی گنا زیادہ نفع حاصل کرسکو۔