فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
پھر جب اللہ نے انہیں تندرست لڑکا دے دیا تو وہ اللہ کی بخشش میں دوسروں کو شریک [١٨٩] بنانے لگے جبکہ اللہ ایسی چیزوں سے بلند تر ہے جو یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں
﴿ فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا﴾” پس جب وہ ان کو صحیح وسالم (بچہ) دیتا ہے۔“ یعنی ان کی دعا قبول کرتے ہوئے جب ان کو صحیح سالم بچہ عطا کیا اور اس بارے میں ان پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی ﴿جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا﴾” تو اس میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں۔“ یعنی اس بچے کے عطا ہونے پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا دیئے۔ جس کو اکیلا اللہ تعالیٰ وجود میں لایا ہے اس نے یہ نعمت عطا کی ہے اور اسی نے یہ بچہ عطا کر کے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ پس انہوں نے اپنے بیٹے کو غیر اللہ کا بندہ بنا دیا۔ یا تو اسے غیر اللہ کے بندے کے طور پر موسوم کردیا مثلاً” عبدالحارث“ ” عبدالعزی‘‘ اور ” عبدالکعبہ“ وغیرہ۔ یا انہوں نے یہ کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان نعمتوں سے نوازا جن کا شمار کسی بندے کے بس سے باہر ہے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کیا۔ کلام میں یہ انتقال نوع سے جنس کی طرف انتقال کی قسم شمار ہوتا ہے کیونکہ کلام کی ابتدا آدم اور حوا علیہما السلام کے بارے میں ہے پھر کلام آدم و حوا علیہما السلام سے جنس کی طرف منتقل ہوگیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ شرک، آدم و حوا علیہما السلام کی ذریت میں بہت کثرت سے موجود ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان سے شرک کے بطلان کا اقرار کروایا ہے نیز یہ کہ وہ اس بارے میں سخت ظالم ہیں، خواہ یہ شرک اقوال میں ہو یا افعال میں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان سب کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس جا ن سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان میں سے ان کے جوڑے پیدا کئے پھر ان کے درمیان مودت و محبت پید کی جس کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے پاس سکون پاتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے الفت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف ان کی راہنمائی فرمائی جس سے شہوت، لذت، اولاد اور نسل حاصل ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ تک ماؤں کے بطن میں اولاد کو وجود عطا کیا۔ وہ بڑی امیدوں کے ساتھ اولاد کی پیدائش کا انتظار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بچے کو صحیح سالم ماں کے پیٹ سے باہر لائے۔ پس (اس دعا کو قبول کرتے ہوئے) اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت پوری کردی اور ان کو ان کا مطلوب عطا کردیا۔ تب کیا اللہ تعالیٰ اس بات کا مستحق نہیں کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اسی کے لئے اطاعت کو خالص کریں؟ مگر معاملہ اس کے برعکس ہے، انہوں نے ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا دیا